وہ دور بدل گیا ۔ عرافات اب ایک قصہّ پارینہ ہو گئے۔ آج ان دنوں دہلی میں فلسطین کا ذکر بھی ذکرممنوع قرار ہوا۔ اس وقت تو اسرائیل کے وزیر اعظم اور ہمارے وزیر اعظم کے ’دوست‘ بنجامن نیتن یاہو اور نریندر مودی ایک دوسرے کے لئے بچھے جارہے ہیں۔ آج کی دنیا میں سوویت یونین صفحہ ہستی سے ہی ختم ہوچکا ہے۔ اب انقلابیوں کا زمانہ ختم ہوا۔ آج کا نوجوان ’مودی مودی‘ کی تسبیح پڑھتا ہے۔
لیکن اس تمام انقلاب زمانہ کے باوجود میرے ذہن میں جان دیال کا وہ سوال کہ’ کیا کبھی فلسطین ریاست کا وجود ہوگا کہ نہیں ‘ کہیں نہ کہیں وقتاً فوقتاً گونجتا رہتا ہے۔ آج کے عالمی ماحول میں تو یہ خواب بھی بے سود لگتا ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ جب فلسطین کی دنیا میں کسی کو فکر ہی نہیں رہی تو پھر فلسطینی ریاست کا کیا ذکر۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ وہ خاموشی سے اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔