جیسا عرض کیا وہ دور ہی الگ تھا وہ ڈونالڈ ٹرمپ اور نریند مودی جیسے قائدوں کا دور نہیں تھا۔ اس دور میں انقلاب اور انقلابی لیڈروں کی ہی عزت ہوتی تھی ۔ ایسے حالات میں جب یہ خبر پھیلی کہ یاسر عرافات دہلی آنے والے ہیں تو دہلی کی میڈیا برادری میں ہلچل مچ گئی۔
میں اس وقت ایک نوجوان صحافی تھا۔ بس دل میں یہی ولولہ تھا کہ کسی طرح یاسر عرافات سے ملاقات ہو جائے۔ ایک ہم کیا پریس کلب آف انڈیا میں جس کو دیکھو ہر صحافی اس کوشش میں کہ کسی طرح عرافات کا انٹرویو مل جائے۔

خیر، عرافات دہلی پہنچے۔ میرے اخبار کی طرف سے مجھ کو بھی کانفرنس کور کرنے کو بھیجا گیا۔ کانفرنس کے دوسرے روز ہی میڈیا لاؤنج میں یہ خبر آئی کہ یاسر عرافات پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔ ہم اشوکا ہوٹل کے اس ہال میں بڑے جوش وخروش سے پہنچ گئے۔ ہمارے ساتھ وہاں ہمارے میڈیا گرو اور’ پیٹریوٹ‘ اخبار کے بیورو چیف جان دیال بھی موجود تھے۔ جلد ہی ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ ذرا سی دیر میں یاسر عرافات پہنچ گئے۔