کراچی۔ سہیون دھماکہ کے بعد ’ملک بھر میں سخت کریک ڈاؤن، 100 سے زیادہ شدت پسند ہلاک ہو گئے۔ سندھ کے شہر سیہون میں لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے 24 گھنٹے کے دوران ملک بھر میں مختلف کارروائیوں میں 100 سے زیادہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ زائرین نے جمعہ کو مزار کے احاطے میں دھمال ڈالا۔ دوسری جانب لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے احاطے میں زائرین جمع ہو گئے ہیں اور انھیں وہاں دھمال بھی ڈالا ہے۔ حکام کے مطابق خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 80 سے تجاوز کر گئی ہے اور سندھ بھر میں سرکاری سطح پر تین روزہ جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی ایک دن کے سوگ منایا جا رہا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جمعے کو جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق ’گذشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر بشمول پنجاب میں کیے جانے والے کومبنگ آپریشنز میں 100 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے‘۔ بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز کو حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث شدت پسندوں کا نیٹ ورک توڑنے میں کا میابی ملی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے حکومتِ سندھ کے اعلامیے کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد میں سے جمعے کو مزید سات زخمیوں نے دم توڑ دیا جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 83 تک پہنچ گئی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس خودکش حملے میں 343 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 76 شدید زخمیوں کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔ پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعے کو نوابشاہ اور سیہون کا دورہ کیا ہے اور زخمیوں کی عیادت کی۔ سیہون میں خودکش دھماکہ جمعرات کی شام درگاہ کے اندرونی حصے میں اس وقت ہوا جب وہاں زائرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔اے ایس پی سیہون کے مطابق حملہ آور سنہری دروازے سے مزار کے اندر داخل ہوا اور دھمال کے موقعے پر خود کو اڑا لیا۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی ہے۔
تحقیقاتی ٹیموں نے بھی جمعے کو دھماکے کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں سے شواہد اکٹھے کیے ہیں۔ پاکستانی ٹی وی ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن راجا عمر خطاب نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں حملہ آور کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔ صحافی علی حسن کے مطابق سیہون میں خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے زائرین میں سندھ کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ جمعے کو درگاہ پر سخت سکیورٹی کے باوجود زائرین کی بڑی تعداد وہاں پہنچی اور رکاوٹیں توڑنے کے بعد مزار کے احاطے میں داخل ہو کر ماتم شروع کر دیا۔
مظاہرین نے سیہون میں پولیس سٹیشن کا بھی گھیراؤ کیا اور ایک گاڑی بھی نذرِ آتش کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے مزار کی سکیورٹی کے انتظامات ناکافی تھے۔ پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ درگاہ سیہون شریف پر دھماکے کے بعد صوبے بھر میں تمام مذہبی مقامات اور درگاہوں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بری امام اور لاہور میں بی بی پاک دامن کے مزار بند کر دیے گئے ہیں جبکہ داتا دربار کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔