اس کے بعد دو روز پہلے ہی ایران سے بھاگنے والے جنرل ہائزر سے ملاقات کی تا کہ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے فوج کی آمادگی کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین تہران کی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے فوج کی جانب سے کسی بھی طرح کے اقدام کا امکان چھین لیا۔
ایران کے اکثر شہروں میں عوام اور فوج کے درمیان بھرپور جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ اسپتال شہیدوں اور زخمیوں سے بھرے پڑے تھے، نیشنل ڈاکٹرز آرگنائیزیشن کے مطابق رات بارہ بجے تک تہران میں ایک سو چھبیس افراد شہید اور چھے سو چونتیس زخمی ہوئے تھے۔
اگلی صبح طلوع ہونے سے پہلے، بحریہ کے جوان بھی فضائیہ کے جوانوں سے آملے تھے جبکہ بری فوج کے بہت تھوڑے سے سپاہی شاہی حکومت کی وفاداری پراڑے ہوئے تھے لیکن ان کی طاقت مسلسل گھٹتی جارہی تھی کیونکہ فوج کے اکثر جوان عوام کی صفوں میں شامل ہوچکے تھے۔