نئی دہلی۔ پاکستانی طلبا کی انڈیا سے قبل ازوقت واپسی کا معاملہ سفارتی سطح پر اٹھائیں گے۔ ہندو شدت پسند تنظیم کی دھمکیوں کے بعد انڈیا کے دورے پر گئے ہوئے پاکستانی طلبا کو قبل از وقت واپس بھیجے جانے پر پاکستان نے یہ معاملہ انڈیا اور عالمی برادری سے سفارتی سطح پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ 50 طلبا اور اساتذہ کا یہ وفد ایک غیر سرکاری تنظیم کی دعوت پر یکم مئی کو انڈیا گیا تھا تاہم حکومت کی ہدایت ہر اسے بدھ کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس معاملے پر پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انڈیا میں ہندو انتہا پسندی اور عدم برداشت عروج پر ہے اور وہاں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کیا جانا معمول بن گیا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ انڈیا میں مذہبی منافرت عالمی توجہ کا مرکز بن گئی ہے اور پاکستان اس معاملے کو سفارتی سطح پر انڈیا اور عالمی برادری کے ساتھ اٹھائے گا۔’ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور عدم برداشت مغرمی ممالک کے میڈیا کی شہ سرخیاں بن چکی ہے۔ ‘ہندو انتہا پسند تنظیمیں اس قسم کے واقعات میں ملوث ہیں اور انڈین حکومت خاموش تماشائی بن کر رہ گئی ہے۔’
واضح رہے کہ پاکستانی سکول کے طلبا اور اساتذہ کے 50 رکنی وفد کو غیر سرکاری تنظیم روٹس ٹو روٹس نے ایکسچینج پروگرام کے تحت مدعو کیا تھا۔ یہ افراد یکم مئی کو واہگہ کے ذریعے انڈیا گئے تھے تاہم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین فوجوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔ اسی دوران ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے ان طلبا کی انڈیا میں موجودگی کے حوالے سے دھمکی بھی دی جس کے بعد انڈین حکومت نے این جی او کو مشورہ دیا کہ یہ وقت پاکستانی طلبا کی میزبانی کے لیے موزوں نہیں۔
حکومت کی جانب سے اس مشورے کے بعد 50 رکنی پاکستانی طلبا کے وفد کو تین مئی کو واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ اس بارے میں انڈیا کے دفتر خارجہ کے ترجمان گوپل باگلے نے کہا ‘جب ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستانی طلبہ یکم مئی کو انڈیا پہنچ گئے ہیں تو ہم نے این جی او سے کہا کہ یہ وقت اس قسم کے ایکسچینج پروگراموں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ یہ بچے اسی دن انڈیا پہنچے جب ہمارے فوجیوں کو مسخ کیے جانے والی غیر انسانی حرکت کی گئی۔’