نئی دہلی: دہشت گردی کے الزام میں 15سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند دومسلم نوجوانوں کی رہائی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ جمعیۃ علما ہند کی جانب سے معاملہ کی پیروی کئے جانے اور عدالت کے سامنے تمام دلائل پیش کئے جانے کے بعد لکھنؤ ہائی کورٹ نے آج سلیم قمر اور الطاف حسین کی عمر قید کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا ۔
فیض آباد کی خصوصی گنگسٹر عدالت نے ان دونوں نوجوانوں کو تعزیرات ہند کی دفعات 121(اے)122 کے تحت عمر قید کی سزاسنائی تھی جبکہ دھماکہ خیز مادہ ایکٹ کی دفعات 3,4,5 کے تحت 10سال کی سزاء تجویز کی تھی ۔ عدالت نے دس سال کی سزا والے معاملہ کی سماعت فی الحال ملتوی کردی ہے۔ عمر قید کی سزا ختم کر دئے جانے کے بعد ان دونوں نوجوانوں کو اب جلد ہی طویل قید سے رہائی حاصل ہو جائے گی۔
واضح ہو کہ سلیم قمر اور الطاف حسین کو اتر پردیش پولیس نے 14 جنوری 2001ء کو دھماکہ خیز مادہ رکھنے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضہ آر ڈی ایکس، زندہ کارتوس ، ٹائمر، بیٹری و دیگر مواد ضبط کرنے کا دعوی کیا تھا۔ پولیس نے ان پر الزام عاید کیا تھا کہ یہ دونوں نوجوان ایودھیا میں رام جنم بھومی میں بم دھماکہ کرنا چاہتے تھے ۔ فیض آباد کی خصوصی عدالت نے اس معاملے میں الطاف حسین اور سلیم قمر کوعمر قید کی سزاسنائی تھی اوردھماکہ خیز مادہ کے قانون کے معاملے میں 10 سال کی سزا تجویز کی تھی ۔
جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علما مہاراشٹر کی قاونی امداد کمیٹی نے نچلی عدالت سے دی گئی سزاؤں کے خلاف لکھنؤ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی تھی جس کی سماعت گذشتہ دو سال سے جاری تھی۔ آج کی سماعت کے دوران ہائلی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس چوہان اور جسٹس اننت کمار نے ملزمین کو جہاں عمر قید کی سزا سے بری کردیا وہیں دھماکہ خیز مادہ والے قانون کے تحت تجویز کی گئی دس سال کی سزاء والے معاملے کی سماعت فی الحال ملتوی کردی۔
ملزمین کے مقدمات کی پیروی کے لئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر دہلی سے ایڈوکیٹ عارف علی اور لکھنو کے وکیل محمو دعالم کو مقرر کیا گیا تھا ، جنہوں نے لکھنؤ ہائی کورٹ کے سامنے مدلل بحث کی ، جس کے بعد آج ملزمین کی عمر قید کی سزاؤں کو ختم کردیا گیا ۔
عمر قید کی سزا سے بری کر دئے جانے کے بعد سلیم قمر اور الطاف حسین اب جلد ہی جیل سے رہا ہوجائیں گے۔ ان پر عاید دیگر مقدمہ کی اپیل پر سماعت کے بعد اس میں بھی ان کاباعزت بری ہوجانا تقریبا یقینی مانا جا رہا ہے۔ مقدمہ کے تعلق سے دفاعی وکیل عارف علی نے بتایا کہ انہوں نے لکھنو ہائی کورٹ میں استغاثہ کی خامیوں کی نشاندہی کی ، جس کی بنیاد پر ملزمین کو عمر قید کی سزاؤں سے باعزت بری کردیا گیا ۔
عارف علی کے مطابق اس پورے معاملے میں استغاثہ نے سنگین غلطیاں کیں اور دونوں بے گناہوں کو ایک طویل عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے پر مجبور کیا ۔ انہو ں نے کہا کہ ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات کے تحت گرفتار ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت حاصل کرنا قانوناًضروری ہے لیکن اس معاملے میں خصوصی اجازت حاصل نہیں کی گئی اور ایف آئی آر کی کاپی دو ہفتوں کے بعد عدالت میں پیش کی گئی جس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کے ملزمین کے خلاف جھوٹامقدمہ قائم کیا گیا تھا ۔ ایڈوکیٹ عارف علی نے کہا کہ دھماکہ خیز مادہ کے قانون کے اطلاق کے لیئے جو اجازت نامہ حاصل کیا گیا تھا وہ بھی فرضی معلوم ہوتا ہے لہذا ملزمین جلد ہی اس معاملہ میں بھی باعزت بری ہوجائیں گے۔
ادھر جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے لکھنؤ ہائی کورٹ کے فیصلہ کا خیرقدم کرتے ہوئے کہا کہ دیر سے ہی لیکن بے قصور نوجواوں کو انصاف مل گیا ہے ، لیکن اسی کے ساتھ یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں کس طرح سے مسلم نوجوانوں کے مستقبل اور ان کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پولس کے تعصبانہ یا غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے ان دونوں نوجوانوں کو اپنی زندگی کے قیمتی 15سال جیل کی نذر کر دینے پڑے۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ ان بے قصور افراد کی زندگی برباد ہونے کے لئے کون ذمہ دارہے؟
کیا یہ حکومت کا فرض نہیں بنتا ہے کہ جن پولس افسران نے ا ن نوجوانوں کے خلاف فرضی معاملات تیار کئے اب ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیجا جائے اورعدالت سے بری کئے گئے ا دونوں نوجوانوں کو معقول معاوضہ ادا کیا جائے۔مولانا مدنی نے امید ظاہر کہ یہ دونوں نوجوان باقی مقدمات سے بھی بری ہوجائیں گے۔ یہ اطلاع جمعیت علما کی پریس ریلیز میں دی گئی۔