رنگون۔ مسلم روہنگیا کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کے سابق سربراہ کوفی عنان کی زیر قیادت ایک ٹیم برما کی راکھین ریاست پہنچی۔ فوج نے ان کے خلاف کارروائی کرکے کم از کم 86 افراد کو ہلاک کردیا ہے اور 10 ہزار افراد نے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔ 9 اکتوبر کو جنگجووں نے سرحدی چوکیوں پر حملے کئے تھے جس کے بعد سے فوج نے انہیں کچلنے کا کام شروع کردیا تھا۔ عنان ایک دن ریاستی راجدھانی ستوے میں گزاریں گے اس کے بعد وہ شمال کی طرف جائیں گے۔ میانمار کی لیڈر آنگ سان سوکی نے شورش زدہ ریاست کو مشورہ دینے کے لئے موجودہ لڑائی بھڑکنے سے قبل 9 رکنی کمیشن مقرر کیا تھا۔ اس ریاست میں 2012 کے فسادات میں سو سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جس کے بعد سے راکھین بودھ اور روہنگیا مسلم علاحدہ علاحدہ رہتے ہیں۔
تازہ تشدد سے آٹھ ماہ پرانی سوکی حکومت کے لئے بہت بڑامسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور نوبل انعام یافتہ لیڈر پر پھر سے بین الاقوامی نکتہ چینی ہونے لگی ہے کہ انہوں نے روہنگیا اقلیت کی کوئی مدد نہیں کی ہے۔ انہیں شہریت سے بنیادی خدمات تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے۔
عنان سمیت تین غیر ملکی کمشنروں کا ہوائی اڈے پر راکھین کے وزیراعلی نی پو اور 100 کے قریب مظاہرین نے استقبال کیا۔مظاہرین نے جو تختیاں اٹھا رکھی تھیں ۔ ان پر لکھا تھا ’’ کوفی عنان کمیشن‘‘ نہیں چاہتے۔ مظاہرین سے زیادہ وہاں پولیس والے تھے جو بلٹ پروف جیکٹیں پہنے ہوئے تھے اور رائفلیں اٹھائے ہوئے تھے۔ مظاہرین میں شامل ایک کاشتکار ماونگ کھن نے کہا ’’راکھین ایک داخلی معاملہ ہے۔ ہم باہر والوں کی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں اپنے مسائل کے لئے غیر ملکیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اس کیش کو بگاڑ دیا ہے وہ صحیح سے نمٹ نہیں پائی ہے۔
میانمار کی فوج اور حکومت نے وہاں کے باشندوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ فوجیوں سے کارروائی کے دوران روہنگیا کی عورتوں کی عصمت دری کی ہے، مکانات کو جلایا ہے اور عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے افسران کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں دس ہزار سے زیادہ افراد جان بچا کر بنگلہ دیش بھاگ گئے ہیں۔ سوکی نے ہفتوں کے بین الاقوامی دباؤ کے آگے جھکتے ہوئے کل حملوں کی تفتیش کرنے اور فوج کی جانب سے زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جانچ کے لئے کمیشن مقرر کردیا ہے۔ تاہم جب انہوں نے ٹیم کے سربراہ نائب صدر مینت سوے کو بتایا تو لوگوں کی پیشانی پر بل پڑ گئے کیونکہ وہ سابق فوجی حکومت کے تحت خوفنکاک فوجی انٹلی جنس کے سربراہ تھے۔ مینت ساوے نے 2007 میں بودھ بھکشووں کے فوجی حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج کو خاموش کرنے کے لئے ظالمانہ کارروائیاں کی تھیں۔