سری نگر: وادی کشمیر میں کرفیو کے باعث جمعہ کو مسلسل چودہویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔ کرفیو کی وجہ سے آج گرمائی دارالحکومت سری نگر کی تاریخی ومرکزی جامع مسجد اور متعدد دیگر مساجد میں مسلسل دوسرے جمعہ کو بھی نماز جمعہ ادا نہ ہوسکی۔
جن مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی، میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا جس دوران کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی کی گئی۔ اِن میں سے بیشتر احتجاجی مظاہرے پرامن رہے ۔ دوسری جانب وادی میں موبائیل فون اور انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا ہے اور لوگ ایک دوسرے کی سلامتی کو لیکر سخت تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وادی کے ساتھ ساتھ جموں خطہ میں بھی انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل ہی رکھا گیا ہے ۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان چلنے والی ریل سروس بھی گذشتہ چودہ روز سے بدستور معطل ہے ۔ کشمیر انتظامیہ نے کسی بھی احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو 9 جولائی سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظربند رکھا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق وادی کو گذشتہ 13 دنوں کے دوران مسلسل کرفیو اور ہڑتال کے باعث دس ہزار کروڑ روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے دوران تاحال 48 افراد ہلاک جبکہ قریب 4000دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں 3 خواتین اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے ۔ بیشتر افراد سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ تین خواتین میں سے 18 سالہ جواں سال لڑکی یاسمینہ 10 جولائی کو ضلع کولگام کے دمہال ہانجی پورہ جبکہ 55 سالہ سیدہ بیگم اور 32 سالہ نیلوفر اختر18 جولائی کو ضلع کولگام کے قاضی گنڈ میں سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں۔
کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے گذشتہ روز اپنے ایک مشترکہ بیان میں وادی میں جاری ہڑتال میں 25 جولائی تک توسیع کا اعلان کرتے ہوئے جمعۃ المبارک 22جولائی کو پورے عالم میں ‘کشمیر ڈے ‘ کے طور پر منانے کی اپیل کی تھی۔انہوں نے کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام انصاف پسند لوگوں اور مختلف ممالک میں بودوباش رکھنے والے کشمیریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ 22جولائی جمعہ کو ‘یومِ کشمیر’ کے موقعے پر اپنی جگہ پر جلسے اور جلوسوں8 کا اہتمام کرکے تنازعہ کشمیر کے حل کی ضرورت کو اُجاگر کرائیں اور کشمیری عوام کے ساتھ ہورہی جبروزیادتیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔
کشمیر انتظامیہ نے علیحدگی پسند قیادت کی اس اپیل پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے وادی بھر میں پہلے سے عائد کرفیو میں جمعہ کی علی الصبح مزید سختی لائی جس کے باعث تاریخی جامع مسجد سمیت متعدد دیگر مساجد میں نماز جمعہ نہ ہوسکی۔تاہم شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع درگاہ حضرت بل میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی جہاں نماز ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد عام دنوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ ڈاؤن ٹاون سری نگر کے نوہٹہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ آج سیکورٹی فورسز کے اضافی اہلکار تاریخی جامع مسجد کے باہر تعینات کردیے گئے تھے اور آج صبح سے ہی کسی بھی شخص کو مسجد کے احاطے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔