سری نگر: وادی کشمیر میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے گذشتہ ماہ کی یکم تاریخ سے بدستور بند پڑے ہیں۔ ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم نے وادی کشمیر اور خطہ جموں کے سرمائی زون میں ہائیر سکینڈری سطح تک کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یکم جولائی سے 17 روزہ گرمائی تعطیلات کا اعلان کیا تھا۔ تاہم وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے پیش نظر گرمائی تعطیلات میں 25 جولائی تک توسیع کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگرچہ توسیع کردہ گرمائی تعطیلات کے درمیان ریاستی وزیر تعلیم نعیم اختر نے وادی کے چار اضلاع شمالی کشمیر کے بارہمولہ و بانڈی پورہ اور وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام میں 20 جولائی سے تعلیمی سرگرمیاں بحال کرانے کا حکم جاری کردیا تھا، لیکن اسکولوں میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر درج کی گئی تھی۔طلباء کو تعلیمی اداروں میں واپس لانے کی اس کوشش کی ناکامی کے بعد ریاستی حکومت نے کسی دوسری عملی پہل کی زحمت نہیں اٹھائی۔ وادی میں گذشتہ 34 دنوں کے دوران 57 عام شہری ہلاک جبکہ 4 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی پولیس کے دو اہلکار ہلاک جبکہ جموں وکشمیر اور مختلف دیگر حفاظتی دستوں کے 3500 اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔
تعلیمی ادارے 40 روز تک بند رہنے کے بعد اب ناظم تعلیم کشمیر نے اپنے آفیشل فیس بک پیج کے ذریعے طلباء سے اسکولوں میں واپس آنے کی جذباتی اپیل کی ہے ۔ تاہم وادی میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات معطل رہنے کے باعث محکمہ تعلیم کی یہ جذباتی اپیل طلباء تک نہیں پہنچ پائی ہے ۔ ناظم تعلیم کشمیر نے اپنے فیس بک پوسٹ میں بچوں سے مخاطب ہوکر کہا ہے ‘آپ کے بغیر ہمارے دن بے جان ہیں۔ بچوں، آپ اسکول کب واپس آرہے ہو؟ آخری مارننگ اسمبلی اور دوپہر کی ہڈل کو دیکھے ہوئے بہت دن گذر گئے ہیں۔ اس سے قبل کہ ہم درس و تدریس کا فن اور آپ سیکھنے کا مزہ بھول جائیں واپس آجاؤ ۔ پرانی دوستی کو بچانے کے لئے واپس آجاؤ۔ ہم آپ کو بہت یاد کرتے ہیں’۔ تاہم محکمہ تعلیم کی اپیل والے فیس بک پوسٹ پر وادی کشمیر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی سہولیت رکھنے والے افراد یا وادی سے باہر مقیم کشمیریوں نے شدید تنقیدی تبصرے کئے ہیں۔تقویم خان نامی ایک فیس بک صارف نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ‘چھروں سے کیسے بچا جائے ‘ پر محکمہ تعلیم کو طلباء کے لئے کریش کورس شروع کرنا چاہیے ۔ جمشید رشید نامی ایک صارف نے اپنے ردعمل میں کہا ‘سر، ہم بھی اسکول جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ لیکن ہم میں سے بعض ایسے ہیں جو اَب بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہم اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں۔ پیلٹ بندوقوں نے ہم سے ہماری زندگیاں چھین لی ہیں۔ کیا ہم اب بھی اپنے اسکولوں کو جاسکتے ہیں؟’۔
ایک مقامی سماجی ورکر ڈاکٹر راجا مظفر بٹ نے اپنے ردعمل میں کہا ‘سرکاری اساتذہ جو باضابطہ طور پر تنخواہیں لے رہے ہیں، اپنے پڑوس میں رہ رہے طلباء کو اپنے گھروں میں پڑھا سکتے ہیں’۔ اشفاق بخاری نامی ایک صارف نے کہا ‘میں بچوں کو شام کی شفٹ میں پڑھانے کے لئے تیار ہوں۔ وادی میں والدین کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں۔ سری نگر کے ڈاون ٹاون کے ایک رہائشی جن کی بیٹی وومنز کالج واقع ایم اے روڑ میں زیر تعلیم ہے ، نے بتایا کہ اُن کا کنبہ گذشتہ 34 دنوں سے اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود ہے اور اُن کی بیٹی کا ڈاون ٹاون سے سیول لائنز تک کا سفر کرنا بالکل ناممکن ہے ۔ اگرچہ سری نگر کے سیول لائنز میں واقع وومنز کالج، ایس پی کالج، امرسنگھ کالج، ایس پی اسکول، گرلز ہائر سکینڈری اسکول کوٹھی باغ و میرا کدل میں تعینات تدریسی و غیر تدریسی عملے کے کچھ اراکین اپنی ڈیوٹی پر آرہے ہیں، تاہم طلباء کی غیرحاضری میں تدریسی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہوئی ہیں۔دریں اثنا وادی کے تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیوں کی معطلی کے درمیان پڑھے لکھے نوجوانوں نے اپنے محلوں اور گاؤں میں صبح اور شام کے وقت بچوں کو پڑھانا شروع کردیا ہے ۔ پڑھے لکھے کشمیری نوجوانوں کی جانب سے بچوں کو پڑھانے کے متبادل انتظامات کئے جانے کی اطلاعات وادی کے اطراف واکناف سے مسلسل موصول ہورہی ہیں۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر کے شہرخاص کے کاؤ محلہ خانیارمیں مقامی محلہ کمیٹی نے ‘شادی خانہ’ میں بچوں کو پڑھانے کا متبادل انتظام کیا ہے ۔
مقامی لوگوں نے یو این آئی کے ایک نامہ نگاروں کو بتایا کہ ‘شادی خانہ’ میں شروع کردہ عارضی اسکول میں مقامی پڑھے لکھے نوجوان لڑکے و لڑکیاں رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عارضی اسکول میں پہلی سے دسویں جماعت تک کے بچوں کو پڑھایا جارہا ہے ۔ مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ عارضی اسکول میں بچوں کو اپنے متعلقہ اسکولوں کی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں۔ وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ماگام کے رہنے والے ایک نوجوان انجینئر عرفان علی بانکا نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آزمائش کے اِن لمحات میں بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ بنیادی حق اور تعلیم کے لئے جستجو ساتھ ساتھ چلنی چاہیے ۔ اِسی طرح شہرخاص کے حسن آباد رعناواری، مضافاتی علاقہ بمنہ اور وادی کے دوسرے علاقوں میں بھی پڑھے لکھے کشمیری نوجوان نے بچوں کی پڑھائے کے متبادل انتظامات کئے ہیں۔