ممبئی : جمعیت علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں آٹھ قیدیوں کے انکاؤنٹرکئے جانے کے خلاف آج یہاں بھوپال ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کرنے کا اعلان کیا ہے اور جمعیت علماء کے وکلاء کی ایک ٹیم جس نے بھوپال پہنچ کرحالات کا جائزہ لیا اس ے پولس کی جانب سے کی جانے والی اس مدبھیڑ کو فرضی انکاؤنٹر قرارد یتے ہوئے اسے قتل سے تعبیر کیا ہے اور پولیس کی اس کارروائی پر درجنوں سوالات اٹھائے ہیں۔
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت اور سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی گلزار اعظمی کی ایماء پر گذشتہ دو دنوں سے جمعیت علماء کے وکلا بھوپال میں خیمہ زن تھے اس دوران انہوں نے بھوپال سینٹرل جیل کا اور فرضی انکاؤنٹر کے علاقے کا معائنہ بھی کیا نیز دفاعی وکیل پرویز عالم سے ملاقات کی۔ سخت سیکورٹی ہونے کی وجہ سے وفد کو جیل کے اندر ان بیرکوں تک نہیں جانے دیا گیا جہاں قیدی مقید تھے۔
بھوپال سے ممبئی پہنچنے کے بعد ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ بھوپال سینٹرل جیل سے اچاری پور کا فاصلہ تقریباً 6سے 7 کلومیٹر ہے جہاں 31 اکتوبر کی صبح مبینہ سیمی کے آٹھ ارکان کو گولیوں سے بھون دیا گیا جبکہ پولس انہیں زندہ پکڑ سکتی تھی کیونکہ ملزمین پولس پر جوابی کارروائی نہیں کررہے تھے بلکہ وہ تو مدد مانگ رہے تھے نیز یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص آٹھ گھنٹوں میں صرف 7 کلومیٹر کا فاصلہ طئے کرے گا اور وہ بھی ریاستی شاہرہ چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑیوں میں بھاگے گا ؟
ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے بتایا کہ آٹھوں ملزمین کو جیل کے انتہائی سخت حفاظتی بندوبست والے تین الگ الگ بیرکوں میں قید کر کے رکھا گیا تھا اور یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی قیدی لکڑیوں کی چابیوں سے لوہے کے تالوں کو بیرک کے اندر سے کھول کر راہ فرار اختیار کرسکے کیوں کہ جیل کے اندر پولس کا سخت بندوبست ہوتا ہے اور کسی بھی قیدی کی ایک ایک حرکات وسکنات پر پولس کی گہری نگاہ ہوتی ہے نیز جیل کے اطراف کی فصیل سے کود کر راہ فرار اختیار کرنا کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ ایک آئی ایس او میعار کی جیل کی فصیلیں بہت اونچی ہوتی ہیں اور دیوار کے چاروں طرف بڑے بڑے ٹاور بنے ہوئے ہیں جس پر 24 گھنٹہ پولس کا پہرہ ہوتا ہے اور وہ دو ر بین سے دیکھتے رہتے ہیں۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے مزید بتایا کہ28اکتوبر کو جب ملزمین کو بھوپال کی ضلعی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تھا اس وقت تمام ملزمین کے چہروں پر داڑھیاں تھیں لیکن جمعیت علماء فرضی انکاؤنٹر کے وقت ان کے چہروں سے داڑھیاں ندارد یعنی کے ملزمین کو قتل کرنے سے قبل ان کی داڑھیاں مونڈوائی گئیں اور انہیں دوسرے لباس مہیا کرائے گئے۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم کے مطابق پوسٹ مارٹم کے فوٹوز دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملزمین کو کمر سے اوپر سینے ،سر اور چہرے پر گولیاں ماری گئیں تاکہ وہ زندہ نہ بچ سکیں حالانکہ سپریم کورٹ کے رہنمایانہ اصولوں کے مطابق ایسے معاملات میں پولس کو کمر سے نیچے گولیاں مارنے اور ملزمین کو زندہ پکڑنے کی حتی الامکا ن کوشش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے بتایا کہ فرضی انکاؤنٹر میں قتل کیئے گئے ملزمین امجد خان، ذاکر حسین، شیخ محبوب، محمد سالک، خالد احمد، عقیل خلجی، مجیب شیخ جمیل اور ماجد ناگوری کے مقدمات کی سماعت بھوپال ضلعی عدالت کے جج بھوشن یادو کے روبرو چل رہی تھی اور ملزمین پر الزام عائد تھا کہ انہوں احاطہ عدالت میں پاکستان زندہ آباد اور طالبا ن زندہ آباد کے نعرے لگائے تھے حالانکہ ملزمین کے وکیل پرویز عالم کا کہنا ہے کہ پولس نے ملزمین پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا تھا کیونکہ ملزمین نے کبھی بھی اس قسم کے نعرے بھوپال عدالت میں لگائے ہی نہیں تھے بلکہ ملزمین کو ہندوستانی قانون اور عدلیہ پر مکمل یقین تھا اور وہ ان کے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے تھے لیکن پولس نے انہیں فرضی انکاؤنٹر میں ماردیا کیونکہ وہ دیگر مقدمات کی طرح ان مقدمات سے بھی بری ہونے والے تھے۔