جیروسلم۔ اسرائیل نے غرب اردن میں نئی یہودی بستی کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غرب اردن میں نئی یہودی بستی کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ نئی یہودی بستی کی تعمیر کا فیصلہ 20 سال سےزائد عرصہ کے بعد کیا گیا ہے۔ سرکاری سطح پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ تعمیرات نابلس کے قریب ایمک شلو کے علاقے میں کی جائیں گی۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اسی وقت میں امریکی حکومت کے ساتھ آبادکاری سے متعلقہ اقدامات میں کمی کے حوالے سے امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی حکام کی جانب سے اس اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق فلسطین لبریشن آگنائزیشن کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن حنان اشروی کا کہنا ہے کہ ‘آج کے اعلان نے ایک بار بھر ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل استحکام کی ضرورت اور صرف امن کے مقابلے میں غیرقانونی آبادی کی خوشنودی کے لیے عزائم رکھتا ہے۔’
امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس اسرائیلی فیصلے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ غرب اردن اور مشرقی یروشیلم میں یہودی آبادکاریاں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین طویل عرصے سے تنازعے کا باعث ہیں۔ سنہ 1967 میں اسرائیل کی جانب سے غرب اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے یہاں تعمیر ہونے والے 140 بستیوں میں چھ لاکھ کے قریب یہودی آباد ہیں۔ یہ آبادکاریاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہیں جبکہ اسرائیل اسے تسلیم نہیں کرتا۔
گذشتہ ماہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پولیس نے سب سے بڑی بستی امونا کو خالی کروالیا تھا کیونکہ عدالتی حکم کے مطابق یہ فلسطینی زمین پر قائم تھی اور اسے مسمار کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم تن یاہو نے امونا کے رہائشیوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے لیے ایک نیا علاقہ تلاش کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کریں گے۔ برسراقتدار آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف اشارہ دیا تھا کہ وہ ان یہودی بستوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ انھوں نے ان بستوں کے حامی اہلکار کو اسرائیل کے لیے اپنا سفیر بھی مقرر کیا ہے۔