دس پندرہ سال قبل تک ہندوستانی سیاست میں یہ انحطاط نہیں تھا ۔بے جے پی کے ممتاز ترین لیڈر اور سابق وزیراعظم کا یہ مقولہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’کسی کی برائی کر کے چناؤ جیتنے سے بہتر ہار جانا ہے‘‘اب انہیں کی پارٹی کے ارباب حل و عقد نے اسے سیاسی مذاکرات کی کتاب سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔
بیرونی کے ساتھ ساتھ راہل کو اندرونی مخالفین سے بھی پنجہ لڑانا پڑا تھا اور آیندہ بھی لڑانا پڑیگا بہت سے کانگریسی لیڈروں کو راہل کے عروج سے دقت ہو رہی ہے یہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے قدم قدم پر انکے والد راجیو گاندھی کو غلط مشورے دے کر ان سے تاریخی غلطیاں کروائیں اور اب راہل کے ساتھ بھی وہ یہی کھیل کھیل رہی ہیں پارٹی کو اس کی آزمودہ پالیسی میں منحرف کر کے اسے نرم ہندوتو کی راہ پر لے جانے کے مشورہ دینے والے کسی بھی قیمت پر نہرو گاندھی خاندان کانگرس پارٹی اور نہرو کے نظریات کے تیں وفادار نہی ہو سکتے،