صالحہ رضوی
saleha786rizvi@gmail.com
اسلام علکیم: کیسے ہیں آپ سب؟ امید کرتا ہوں بخریت ہونگے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں بقراعید سر پر ہے تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ بکروں پر قلم چلاﺅں۔ اس بار ہم نے عید قربانی کو اپنا موضوع قرا دیا ہے۔
بکرا کہتا ہے :” کیا کوئی تہوار آنے والا ہے جو لوگ ہم کو دیار بہ دیار گھما رہے ہیں کوئی ہم کو پیدل لئے چلا جا رہا تو کوئی اسکوٹر اور بائیک پر ہمارے ساتھی کو لاد کے لے جا رہا ہے کوئی ہمارے کچھ ساتھیوں کو بڑی سی گا گاڑی میں لے جا رہے ہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے مجھے ایک بازار میں لے جایا جا رہا ہیں جہاں ہمارے ساتھیوں کا بہت بڑا مجمعہ نظر آ تا ہے کمبخت میرا مالک مجھے مہلت ہی نہیں دیتا کہ میں اپنے اور ساتھیوں سے جا ملوں۔ ان سے اکیلے میں بات کروں۔ راستے میں کچھ دوست یار میرے مِل گئے جو بائک پر سوار تھے ٹریفک جام میں وہ بھی میری طرح پھنسے ہوئے تھے ۔ جواب دیا کہ ہم لوگ کی بقرعید آنے والی ہے۔ میں نے اس سے کہا بکرا بھائی ذرا تم ہمیں کھل کر بتاﺅ یہ بقر عید کیا ہے اس نے کہاں بکرا بھائی جیسے انسانوں کی عید آتی ہے ویسے ہی ہم لوگوں کی بھی عید آنے والی ہیں چونکہ ہم لوگ بکرا قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہماری عید کا نام بقرا عید پڑ گیا۔خوشی مناﺅ یارو! ہم بکرا قوم کی عید آنے والی ہے۔
پھر کیا تھا میری آنکھیں نم ہونے لگی میرے دوسرے بکرا ساتھی نے پوچھا کہ بھائی تم رو کیوں رہے ہو ہم نے جواب دیا ہماری عید آنے والی ہے اورمیں اپنی ماں سے بہت دور ہوں میں اپنے گھر و خاندان سب سے دور ہوں بھلا میں اس خوشی کے موقع پر اپنے گھر سے دور رہ کر عید کیسے منا سکتا ہوں؟
پھر کیا تھا مجھ میں غیبی طاقت آئی میں نے اپنے مالک سے رسی چھڑائی اور اس مجمعہ کو چیرتا پھاڑتا وہاں سے بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے ایک جنگل نظر آیا جسے پار کرکے میں جیسے ہی آگے بڑھا مجھے راستہ یاد آتا دکھائی پڑا میں آگے چلتا رہا آخر کار میں اپنے گھر پہونچ گیا میں گھر میں جا گھنسا اچانک مجھے دیکھ کر میری بکی مجھے اپنے سینے سے لگا کر خوب کس کے جکڑ کر رونے لگی۔(آپ کو بتاتا چلوں کہ بکی میری ماں ہے میں اپنی بکری اماں کو پیار سے بکی کہتا ہوں) میں بکی اماں کو خوشی سے نچائے مار رہا تھا آخر کار میری اماں کے سمجھ میں نہ آیا کہ میں اتنا خوش کیوں ہوں۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا تم اتنا خوش کیوں ہو؟ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا بکی اماں ہم لوگوں کی عید آنے والی ہے ہم نے سوچا خوشی کا یہ تہوار میں آپ کے ساتھ مناﺅں سو میں اپنے مالک کی رسی چھڑا کر بھاگ آیا۔
ماں میں نے ٹھیک کیا نہ؟ پھر کیا تھا میری بکی اماں زار و قطار رونے لگی وہ اتنا روئی کہ ان کی انکی آنکھیں پھول کر لٹکنے لگی۔ وہ میرے سینے سے لپٹ کر بے ہوش ہو گئیں۔ میری بکی اماں جب ہوش میں آئی تو میں نے ان سے اس طرح رونے بلکنے کا سبب پوچھا؟ انھوں نے منھ بسورتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ بقر اعید ہمارے لئے خوشی کا تہوار نہیں ہے یہ قربانی کا تہوار ہے ہماری قوم کے سارے مرد یعنی بکرے راہِ خدا میں شہید کر دیے جاتے ہیں۔ اور سارے شہادت پانے والے بکرے فوراََ جنت میں داخل ہونگے بیٹا اس وقت تم اپنی بکی اماں کے لئے ضرور دعا کرنا۔ تمہاری دعا خالی نہیں جائے گی۔ میں خوش ہوتے ہوئے بولا بکی اماں اب میں تو شہید نہیں ہوگا کیوں کہ میں تو اپنے مالک کی رسی چھڑا کر بھاگ آیاہوں۔ ماں نے کہا بیٹا قربان تو تمہیں ہونا ہی ہے میرا ملک تمہیں پھر کسی اور کے ہاتھ بیچ دے گا۔
میں نے کہا میری پیاری بکی اماں تم بالکل بھی پریشان مت ہونا خدا کی مصلحت جان کر تم صبر کرنا۔ بکی اماں میں جنت میں تمہارے لئے یہی دعا کروں کہ اللہ میری بکی اماں کو صبر عطا کرے۔ چہادہ معصومین علیہ السلام کے صدقے میں میری قوم کی ساری اماں کے گناہ معاف کرکے جوارِ معصومین میں جگہ دی جائے اور انہیں صبر عظیم عطا کیا جائے۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوداع
فقط آپکی آنکھوں کا تارہ،
سب کا دلارا
”بکرا“
مضمون نگار
صالحہ رضوی