فرانس کے سرحدی شہر کیلے میں واقع پناہ گزینوں کے جنگل کیمپ کا دورہ کرنے والے بی بی سی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام کی جانب سے کیمپ کے خالی ہونے کے دعوؤں کے باوجود اب بھی وہاں سینکڑوں تارکینِ وطن موجود ہیں۔
امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیمپ میں موجود 100 کے قریب بچوں نے بدھ کی شب ایسے حالات میں گزاری کہ ان کے پاس سونے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ پا دے کیلے پریفیکٹ کی اہلکار فیبیئن بیوسیو نے کہا کہ منگل کو شروع ہونے والا آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔ فرانسیسی حکومت کے مطابق اب تک اس کیمپ سے 5600 کے قریب افراد کو استقبالیہ مراکز میں منتقل کیا گیا ہے جہاں سے وہ پناہ کی درخواستیں دے سکتے ہیں۔ ان میں تقریباً 1500 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کے ساتھ کوئی بالغ موجود نہیں۔
فرانسیسی اہلکار اب کیمپ میں باقی رہ جانے والے خیمے اور پناہ گاہیں گرانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جو مبینہ طور پر کیمپ چھوڑنے والے تارکینِ وطن کی جانب سے لگائی گئی آگ کا نشانہ بنے تھے۔ کیلے کا یہ جنگل کیمپ یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران میں ایک استعارہ اور علامتی شکل اختیار کر گیا تھا اور یہاں کے رہائشی برطانیہ جانے کے لیے کوشاں تھے۔ برطانوی خیراتی ادارے کیلے ایکشن کی کیرولین گریگری کا کہنا ہے کہ بدھ کی شب 100 کے قریب بچے اسی کیمپ میں موجود تھے۔ جمعرات کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘ہم فرانسیسی حکام کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ وہ ان بچوں کے لیے کچھ کریں لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔’ رضاکاروں نے ان بچوں کو ایک گودام میں رکھا ہوا ہے جبکہ کچھ کو کیمپ میں قائم عارضی سکول کی عمارت میں جگہ ملی ہے۔
برطانوی خیراتی ادارے کیلے ایکشن کی کیرولین گریگری کا کہنا ہے کہ بدھ کی شب 100 کے قریب بچے اسی کیمپ میں موجود تھے۔ برطانوی محکمۂ داخلہ کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام ہی ‘کیلے میں جاری کلیئرنس آپریشن کے دوران وہاں موجود تمام بچوں کے ذمہ دار ہیں۔’ کیمپ کی صفائی کے کام کے دوران وہاں رات اور دن بھر آگ جلتی رہی۔ کیمپ میں چھ سے آٹھ ہزار تک افراد مقیم تھے۔ بی بی سی کے سائمن جونز نے وہاں سے بتایا ہے کہ ممکن ہے بہت سے لوگ کیمپ سے نکل کر روپوش ہو گئے ہوں اور کیلے کے نواح میں یا پھر دوسرے قصبوں کو چلے گئے ہوں۔ حکام کو خدشہ ہے کہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد وہ دوبارہ کیمپ میں لوٹ سکتے ہیں۔