کمیشن نےسماج وادی پارٹی پر قبضہ بھی اکھلیش خیمے کو دیا
لکھنؤ(نامہ نگار)۔ ملائم سنگھ یادو کی ’سائیکل‘ پر اب اکھلیش یادو ہی سوار ہوں گے۔مرکزی الیکشن کمیشن نے اپنے تاریخی فیصلہ میں انتخابی نشان سائیکل کو ملائم سنگھ کے بیٹے اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے حوالے کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نہ صرف ملائم سنگھ یادو کی سائیکل اکھلیش کے سپرد کردی ہے بلکہ سیاسی دائوں پینچ کے ماہر کھلاڑی کو ایک جھٹکہ یہ بھی دیا ہے کہ انکے ذریعے وجود میں آئی سماج وادی پارٹی کا قبضہ بھی اکھلیش خیمے کو دے دیاہے۔
الیکشن کمیشن پر نہ صرف اکھلیش اور ملائم خیموں کی نگاہیں تھیں ریاست کی تمام سیاسی پارٹیاں کمیشن کے فیصلہ کا انتظار کررہی تھیں۔ سیاسی مبصرین اور تمام سیاسی پارٹیوں کو توقع تھی کہ الیکشن کمیشن سائیکل نشان کو ضبط کرکے دونوں فریقوں کو نیا انتخابی نشان دے دگا لیکن کمیشن نے سبکی توقعات کے خلاف ایک نئی نظیر قائم کرتے ہوئے اکھلیش خیمے کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔
انتخابی کمیشن نے مذکورہ فیصلہ لینے سے قبل اس تنازعہ پرپورے دن غور و خوض کیا۔ کمیشن نے فیصلہ سنانے سے قبل سائیکل نشان کو فریض کرنے کے تمام قانونی پہلووں پر بھی غور کیا۔ لیکن سائیکل کو فریز کرنے میں سب سے بڑی قانونی اڑچن یہ تھی کہ سماج وادی پارٹی تقسیم نہیںہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے سامنے اس سے قبل اس نوعیت کے جتنے بھی معاملات سامنے آئے تھے اس میں انتخابی نشان کو ضبط کرتے ہوئے دونوں فریقوں کو الگ الگ انتخابی نشان تقسیم کیا گیا تھا لیکن اس وقت مسئلہ یہ تھا ان مواقع پرپارٹیاں دو گروپوں میں تقسیم ہوئی تھیں لیکن سماج وادی پارٹی کا معاملہ جدا تھا۔سماج وادی پارٹی دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی بلکہ اکھلیش اور ملائم دونوں ہی خیمے پارٹی پر اپنا اپنا دعویٰ کر رہے تھے۔
سماج وادی پارٹی اپنے مضبوط دعوے کے حق میں جہاں ملائم سنگھ یادو کا خیمہ پارٹی کے آئین کی دہائی دے رہا تھا وہیں اکھلیش یادو کا خیمہ اکثریت کو اپنے ساتھ بتا رہے تھے۔ غور و خوض کے دوران الیکشن کمیشن کو اکھلیش یادوکا پلہ جھکتا ہوا نظر آیا اور اس نے پارٹی کے قومی صدر کے طور پر اکھلیش یادو کے نام پر اپنی مہر لگا دی اور سماج وادی پارٹی کا نام اور اسکا انتخابی نشان سائیکل بھی اکھلیش یادو کو دے دیا۔
الیکشن کمیشن کے لئے آج فیصلہ کرنا اس لئے بھی لازمی ہو گیا تھا کیونکہ کل اتر پردیش میںپہلے مرحلہ کی پولنگ کے لئے نوٹفکیشن جاری ہونا ہے۔ نوٹفکیشن جاری ہوتے ہی امیدوار اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
بر سر اقتدار سماج وادی پارٹی گذشت اسمبلی الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی تھی اور وہی اپنے انتخابی نشان پرپس و پیش میں مبتلا تھی۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کے بعد گذشتہ کئی روز سے جاری کشمکش بھی آج ختم ہو گئی جو اکھلیش اور ملائم خیمے کے درمیان تنازعہ کے بعد سے شروع ہوئی تھی۔ ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو کے خیموںن ے پہلے ہی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کا احترام کریں گے اور اسکے خلاف عدالت نہیں جائیں گے۔
سماج وادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو نے اس سے قبل آج کہاتھا کہ اب انتخابی نشان چاہے کوئی بھی ہو الیکشن وہی امیدوار لڑیں گے جنکے ٹکٹ انکے دستخط سے جاری ہوں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان ہےاور بیٹے کو چند لوگوں نے بہکا دیا ہے۔انہوںنے حالانکہ رام گوپال یادو کا نام تو نہیں لیالیکن اشاروں ہی اشاروں میں بہت کچھ کہہ دیا۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ملائم سنگھ یادو امر سنگھ اور شیو پال یادو کے ہمراہ الیکشن کمیشن گئے تھے۔ کمیشن کے سامنے انہوں نے پارٹی کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا وہی سماج وادیپارٹی کے حقیقی قومی صدر ہیں اور اکھلیش خیمےکے دعووں میں کوئی دم نہیں ہے۔ ملائم سنگھ خیمے کی دلیل تھی کہ پارٹی کے آئین کے مطابق قومی اجلاس میں قومی صدر کو برطرف نہیںکیا جا سکتا۔
اس اجلاس کو بلانے کےلئے کم از کم 30دن پہلے نوٹس دینا لازمی ہے جس پر عمل نہیں کیا گیا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی صدر منتخب کرنے کا ایک عمل ہے جس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔رام گوپال یادو کو پہلے ہی انکے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا لہذا وہ کوئی تجویز پیش نہیں کر سکتے۔
انکی پارٹی میں واپسی کا اعلان فقط ٹویٹرکے ذریع ہی ہوا تھا جو قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اجلاس میں ملائم سنگھ یادو کو برطرف کئے جانے کی کوئی تجویز نہیں پیش کی گئی لہذا نیا صدر منتخب کئے جانے کا کئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ اکھلیش خیمہ جنکی حمایت کا دعوی کر رہا ہے انتخابی کمیشن انکا فزیکل ویریفکیشن کرائے۔
دوسری جانب اکھلیش خیمے کی طرف سے رام گوپال یادو نے الیکشن کیشن سے انتخابات کی تاریخیں سر پر ہونے کی وجہ سے جلد اپنا فیصلہ سنانے کی اپیل کی تھی۔ انتخابی کمیشن نے اخلیش خمیے کو ہدایت دی تھی کہ پارٹی کے ارکان اسمبلی کی جو فہرست کمیشن میں دی گئی ہے اسکی نقل ملائم خیمے کو بھی مہیاکرائی جائے۔
اکھلیش خیمے کی جانب سے نیتا جی کو انکے دہلی اور لکھنؤ میں واقع دفتر میں کاغذات بھیجے گئے لیکن کہیں بھی کاغذات قبول نہیں کئے گئے۔ اکھلیش خیمے نے باقاعدہ لکھنؤمیں میٹنگ کی اور ارکان اسمبلی،ایم ایل سی سے حلفناموں پر دستخط کراتے ہوئے یہ دریافت کیا کہ وہ کنکے ساتھ ہیں۔
اسکے بعد رام گوپال نے دعویٰ کیا کہ انکے ساتھ 212ارکان اسمبلی68ایم ایل سی اور 15ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جہاں اکھلیش ہیں وہیں اصلی سماج وادی پارٹی بھی ہے اور آج الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد انکے اس قول پر کمیشن کی مہر بھی لگ گئی۔