ہم ہندوستان کو اپنا سمجھ کر یہاں آئے تھے
نئی دہلی۔ میں فیروزہ ہوں (بدلا ہوا نام)۔ کراچی کی رہنے والی ہوں۔ علی گڑھ میں میرا نکاح ہوا ہے۔ اب تو جب بھی کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں میں کوئی واردات ہوتی ہے تو دوسرے قصورواروں کی طرح ہم بھی اس کے لئے اپنے آپ کو قصوروار مان لیتے ہیں۔ اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ہم خود کو قصوروار نہیں بھی مانیں تو دوسرے لوگ ماننے لگتے ہیں۔ یقین نہیں ہوتا تو ابھی ہم پاکستان جانے کے لئے ویزا کی درخواست دیتے ہیں، پھر دیکھو کس طرح عجیب وغریب سوالات کے دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر بھولے سے کسی واقعہ کے بعد ویزا کے لئے درخواست دیتے ہیں تو ایسے سوال کئے جاتے ہیں جیسے اس واقعہ کو ہم ہی انجام دے کر پاکستان بھاگنا چاہ رہے ہیں۔
اس دن دوپہر کو میں نے اپنے شوہر سے کشمیر میں ہوئے دہشت گردوں کے حملے کی خبر سنی تھی۔ خبر سنتے ہی میرے منہ سے نکلا تھا کہ اب ایک اور واقعہ کا الزام اپنے اوپر لینا ہوگا۔ کیونکہ نومبر میں ہمارا پاکستان جانے کا پلان تھا۔ اس بار تو میکے گئے ہوئے ڈھائی سال ہو گئے۔ میرے بھائی کے بیٹے ہوا ہے۔ لیکن ابھی تک اسے صرف فوٹومیں ہی دیکھا ہے۔ بڑا دل کرتا ہے کہ اسے گود میں لے لوں اور اپنے ہاتھوں سے اس معصوم کو کرتا پائجامہ پہناوں۔ ابو بھی بہت بیمار رہنے لگے ہیں۔ کشمیر میں ہوئے حملے کے بعد لگا کہ دو تین ماہ میں شاید ماحول کچھ ہلکا ہو جائے گا۔
لیکن جب سے ہماری فوج کے ذریعہ ایل او سی پار جا کر حملے کی خبر سنی ہے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اب تو حال میں اس وقت جانا ہی ممکن نہیں ہوگا۔ اب تو حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ کم تو پاکستان والے بھی نہیں ہیں۔ جب کراچی میں ہم اپنی آمد کرانے جاتے ہیں تو وہاں بھی طرح طرح کے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ شادی کا معاملہ تو تھا ہی لیکن رشتہ پکا ہوتے ہی یہ خیال بھی دل میں تھا کہ صحیح معنوں میں ہندوستان ہی ہمارا گھر ہے۔ میرے پردادا- پر دادی دہلی کے رہنے والے تھے۔ اس لئے ہندوستان کو اپنا سمجھ کر آئی تھی۔ ایسا تو بہت کم ہی ہوتا ہے جب ہم ویزا مانگیں اور ملک میں کسی واقعہ کا ذکر نہ چل رہا ہو یا کوئی حادثہ نہیں ہوا ہو۔
میری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ دو لڑکی اور ایک لڑکا ہے۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں تو دو ممالک کے مسائل کو نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ اس لیے انہیں تو یہی لگتا ہے کہ دوسرے بچوں کی طرح سے ہم بھی امی سے نانی کے یہاں چلنے کی ضد کریں گے اور امی چل دیں گی۔ پہلے کی طرح اب ہر برس میکے جانا نہیں ہوتا ہے۔ بڑی مشکل سے دو سال میں ایک بار جانا ہو پا رہا ہے۔ نومبر میں جانے کا پروگرام بناتے ہیں، لیکن ان دو واقعات کے بعد سے اس بار جانے جیسی کوئی بات بنتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔