افغانستان کے صدر نے بتایا
اسلام آباد: افغان صدر اشرف غنی نے دارالحکومت کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہونے کا الزام لگا دیا۔ افغان صدر کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کی زیر صدارت نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے حکام کی جانب سے کہا گیا کہ یونیورسٹی پر حملے کے شواہد اور مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حملے کی اب تک کی تحقیقات کے حوالے سے اشرف غنی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور حملے میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف شواہد کی روشنی میں سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغان صدر سے ٹیلی فونک گفتگو میں آرمی چیف نے کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے کی مذمت کی اور دھماکے سے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کیا۔ جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ پاکستانی زمین افغانستان میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغان حکام کی جانب سے پاکستان کو 3 موبائل نمبرز کی تفصیلات دی گئیں، جن سے حملہ آور مبینہ طور پر حملے کے وقت رابطے میں تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان حکام کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات پر پاک فوج نے پاک افغان سرحد کے قریب مشتبہ علاقوں میں کومبنگ آپریشن کیا اور اب تک کی پیشرفت سے افغان حکام کو آگاہ کیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران استعمال ہونے والی سمیں افغان نیٹ ورک کی تھیں، جس کے سگنلز بارڈر تک پھیلے ہوئے ہیں، تاہم ان موبائل نمبرز کا تکنیکی جائزہ بھی لیا جارہا ہے۔
بیان کے مطابق اشرف غنی سے گفتگو کے دوران آرمی چیف نے انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ واضح رہے کہ گزشتہ رات کابل میں واقع امریکی یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور 44 زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس چیف عبدالرحمٰن رحیمی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 7 طلباء، 3 پولیس اہلکار اور 2 سیکیورٹی گارڈز شامل ہیں۔