بھوپال۔ سیمی انکاونٹر معاملہ میں شیوراج سنگھ حکومت کے ذریعےعینی شاہدین کو خاموش کرانے کے لئے پیسوں کا لالچ دینے کا الزام مخالفین کی جانب سے عائد کیا جا رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بھوپال سینٹرل جیل سے مبینہ طور پر فرار سیمی قیدیوں کے انکاونٹر کے فرضی ہونے سے متعلق ملک بھر میں جاری بحث کے درمیان انکاونٹر واقعہ کے عینی شاہدین کے لئے ریاستی حکومت کے اعلان کردہ لاکھوں روپئے کے انعام کو انہیں خاموش کرانے کی ایک کوشش سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت شیوراج سنگھ حکومت نے اچارپورا کے کئی عینی شاہدین کو سیمی انکاونٹر معاملہ میں چالیس لاکھ روپئے بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
شیوراج سنگھ حکومت کے ذریعے سیمی انکاونٹر معاملہ میں اس اعلان پر چوطرفہ تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ نیوز پورٹل فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام کے مطابق، مقامی لیڈروں نے اس پر سوال کھڑے کئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین کو اس معاملہ پر کچھ زیادہ نہ بولنے کے لئے انہیں یہ خطیر رقم دی جا رہی ہے۔ لیڈران کا کہنا ہے کہ چالیس لاکھ کی رقم دے کر ایک طرف جہاں حکومت عینی شاہدین کے منھ بند کر دینا چاہتی ہے وہیں حکومت کے اس عمل سے انکاونٹر واقعہ کی جانچ بھی متاثر ہو گی۔
ریاستی حکومت کی ایک سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سیمی انکاونٹر معاملہ میں ‘‘وزیر اعلیٰ نے انکاونٹر کے دوران پولیس کی مدد کرنے والے لوگوں کے لئے اس ایوارڈ کا اعلان کیا ہے۔ ایوارڈ کی یہ رقم ان لوگوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی’’۔ تاہم مقامی لیڈران حکومت کے اس بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیل توڑے جانے سے متعلق جانچ کی کارروائی جب ابھی شروع ہی نہیں ہوئی، اس سے پہلے ایوارڈ کا اعلان کرنا غلط ہے اور یہ جانچ کےعمل کو متاثر کرنا ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل کے ریاستی صدر اور کانگریس کے سینئر لیڈر عارف مسعود کہتے ہیں کہ شیوراج سنگھ نے جان بوجھ کر اور منصوبہ بند طریقہ سے ایوارڈ کا اعلان کیا ہے۔ تاکہ عینی شاہدین اس واقعہ پر چپی سادھ لیں اور پھر وہ ممکنہ درپیش مشکل صورت حال سے خود کو بچا لیں۔
بھوپال کے ایک اور لیڈر محمد ماہر کہتے ہیں کہ عینی شاہدین کے بیانات میں کافی تضاد ہے ۔ سیمی کے قیدی مسلح تھے یا غیر مسلح اور اس کے علاوہ کچھ اور باتوں کو لے کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ لہذا ایوارڈ کی یہ رقم اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ان کی زبان خاموش کرا دی جائے اور اپنا الو سیدھا کر لیا جائے۔ ماہر سماجی تنظیم ایم پی مسلم وکاس پریشد کے صدر ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے اچارپورا گاوں کے کچھ لوگوں نے میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ سیمی قیدیوں کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔
وزیر داخلہ، آئی جی بھوپال اور اے ٹی ایس سربراہ سمیت ریاستی حکومت کے افسران کی بھی رائیں اس معاملہ میں متضاد ہیں۔ سیمی قیدی مسلح تھے یا غیر مسلح ، اس بابت ان کی مختلف رائیں ہیں۔ ایک سینئر وکیل نے کہا کہ حکومت اس معاملہ میں خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ ویڈیوز سمیت متعدد ثبوت ایسے ہیں جن سے انکاونٹر کے بارے میں افسران کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔