انکرا۔ ترکی فوجیوں کی بس میں ہوئے دھماکا میں کم از کم 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ترکی کے صوبے قیصریہ کی ایک یونیورسٹی کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں ایک بس کو نشانہ بنایا گیا۔ بس میں فوجی سوار تھے۔ کم از کم 13 جاں بحق اور چار درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
جس بس کو بم حملے کا نشانہ بنایا گیا، اُس میں وہ فوجی سوار تھے جو اپنی ڈیوٹی مکمل کر کے واپس لوٹ رہے تھے۔ ابھی تک تیرہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ طبی حلقوں کے مطابق اڑتالیس سے زائد زخمی ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی زخمیوں کی حالت انتہائی نازک ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا قوی امکان ہے۔
بم دھماکا قیصریہ نام کے وسطی ترک شہرمیں واقع ارجیس یونیورسٹی کے باہر ہوا۔ حملے کا نشانہ بننے والی بس قیصریہ شہر کی میونسپل کارپوریشن کی تھی۔ بم دھماکے کی لپیٹ میں ارجیس یونیورسٹی کے باہر موجود کئی عام شہری بھی آئے۔ ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئلُو فوری طور پر انقرہ سے قیصریہ شہر پہنچ رہے ہیں۔ قیصریہ بنیادی طور پر ترکی کا صنعتی شہر کہلاتا ہے۔
ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد ترک فوج کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ ترک فوج کے بیان کے مطابق بس قیصریہ شہر کے کمانڈوز ہیڈکوارٹرز سے مختلف شہری علاقوں کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ ہلاک ہونے والے چھوٹے رینک اور نان کمیشنڈ فوجی بتائے گئے ہیں۔
ترکی کے نائب وزیراعظم ویسی کائناک نے ٹیلی وژن پر رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ جو بس بم حملے کا نشانہ بنی، اس پر فوجی سوار تھے۔ کائناک کے مطابق فوجیوں کا تعلق قیصریہ ایئر فورس بریگیڈ سے تھا اور اس بریگیڈ کا قیام بحرانوں اور مشکل حالات میں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔
ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناضول کے مطابق ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے قیصریہ کی ارجیس یونیورسٹی کے قریب ہونے والے بم دھماکے کی میڈیا کوریج پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کی وجہ شہر زندگی میں مزید افراتفری اور خوف و ہراس پھیلنے سے روکنا اور قومی سلامتی بتائی گئی ہے۔
وزیر اعظم کے فیصلے کے مطابق ایسی صورت حال دہشت گردوں اور اُن کی تنظیموں کی حوصلہ افزائی اور اُن کے مقاصد کے لیے تسلسل پیدا کر سکتی ہے۔ وزیراعظم کے دفتر نے بم دھماکے کے مقام سے کوریج کے مکمل بلیک آؤٹ کا بھی بتایا ہے۔
رواں مہینے کی دس تاریخ کو ترکی میں ایک فٹ بال میچ کے بعد ہونے والے دو بم حملوںمیں 44 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔