اورنگ آباد۔ ملی مسائل کے لئے جدوجہد کرنے والا نوجوان بابا صدیقی پراسرار طورپر لاپتہ ہیں۔ وقف جائیدادوں اور ملی مسائل کو لیکر جدو جہد کرنے والا ایک نوجوان بابا صدیقی عرف راشد اورنگ آباد سے دو روز پہلے پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا۔ پولیس اس معاملے کی تفتیش میں مصروف ہے تاہم ابھی تک گمشدگی کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے ۔ لاپتہ نوجوان کے گھر والوں نے راشد کو اغوا کیے جانے کا الزام عائد کیا ہے ۔
وقف جائیدادوں کی بازیابی اورملی مسائل میں پیش پیش رہنے والا نوجوان با با صدیقی عرف راشد پندرہ مارچ کو دوپہر کے بعد سے لاپتہ ہے ۔ کافی تلاش کے بعد راشد کی اہلیہ نے پولیس اسٹیشن اور چھاؤنی پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی شکایت درج کروائی ہے ۔ پولیس لاپتہ نوجوان کا سراغ لگانے میں مصروف ہے ۔ راشد کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ پندرہ اکتوبر کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ پی ای ایس کالج انتظامیہ کے کیئر ٹیکر دلیپ بنسوڑے سے ملاقات کرنے کے لیے چھاونی پولیس اسٹیشن جارہے ہیں ۔ چند گھنٹوں کے بعد جب فون لگایا گیا لیکن فون بند تھا ۔ رات دیر گئے بھی راشد گھر نہیں لوٹے ۔
اس تعلق سے پولیس سے رابطہ کیا گیا لیکن پولیس والوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ دراصل پن چکی کے عقب میں پی ای ایس ایجوکیشن سوسائٹی کے تعلیمی ادارے قائم ہیں ۔ ان اداروں کے پچھلے حصے میں تقریباً دو ایکڑ زمین رقبے پر محیط ایک قدیم قبرستان ہے ۔ اس قبرستان میں آج بھی سینکروں سال پرانی قبروں کے آثار ہیں ۔ یہاں نظام دور حکومت کی ایک مسجد بھی تھی جو وقت کے ساتھ مخدوش ہوگئی ۔ قبرستان کی اس زمین کو پی ای ایس سوسائٹی اپنی ملکیت بتا رہی ہے جبکہ وقف بورڈ اسے وقف کی ملکیت قرار دے رہا ہے ۔ بابا راشد صدیقی اس معاملے کو لیکر پچھلے تین سال سے جدوجہد کر رہے تھے اور تمام دستاویز حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہے تھے۔
دستاویز کی بنیاد پر وقف بورڈ نے مسجد کی ازسر نو تعمیر کی اجازت بھی دیدی ہے۔ راشد نے تعمیری کام شروع کروانے کے لیے مٹیریل بھی خرید لئے تھے۔ اسی سلسلے میں انھیں دلیپ بنسوڑے کے فون سے چھاونی پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا ۔ لیکن اس کے بعد سے راشد صدیقی کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ راشد صدیقی کی گمشدگی کو لیکر اقلیتی حقلوں میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ اس پورے معاملے پر پولیس لب کشائی کرنے سے گریز کررہی ہے ۔ اس معاملے میں پولیس پر جانبداری کے الزامات بھی عائد ہورہے ہیں ۔