علی گڑھ ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اے ایم یو کے سابق طالب علم، ماہرِ غالبیات، محقق اور نیشنل امیر خسرو سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر خلیق انجم کی رحلت پر تعزیتی جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت پدم شری پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے کی جبکہ نظامت کے فرائض شعبہ کے استاد معید رشیدی نے انجام دئے۔ مہمانِ ذی وقارکی حیثیت سے دہلی یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر ابنِ کنول اور اے ایم یو کے مرکز برائے فارسی تحقیقات کی ڈائرکٹر پروفیسر آذر می دخت صفوی نے شرکت کی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سربراہ اور ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے مدیر پروفیسر صغیر افراہیم نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ خلیق انجم نے اردو گھر کی تعمیر اور ذوق کے مزار کو دوبارہ تعمیر کرانے میں خصوصی کوششیں کیں۔ انہوں نے غالبؔ، سوداؔ، سرسید، حسرت موہانیؔ اور مرزا مظہر جانجاناںؔ اور متنی تنقید پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ یہاں تک کہ84برس کی زندگی میں ان کی80سے زائد کتب شائع ہوئیں۔پروفیسر محمد زاہد نے کہا کہ بسیار نویس ہونے کے باوجود خلیق انجم کی تحریروں میں گہرائی اور سنجیدگی محسوس ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خلیق انجم عمدہ تحریر لکھنے کے ساتھ اچھے مقرر بھی تھے۔
صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پدم شری پروفیسر ظل الرحمن نے کہا کہ38برس تک وہ انجمن ترقی اردو ہند سے وابستہ رہے۔ خود بھی تصنیف و تالیف کی طرف توجہ کی اور دوسروں کو بھی اس طرف مائل کیا۔ ان میں منافقت نہیں تھی اور وہ اپنے اصولوں کے پابند تھے۔انہوں نے کہا کہ انجمن کی طرف سے ہر سال خلیق انجم میموریل خطبہ کا اہتمام کیا جانا قابلِ ستائش قدم ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر آذرمی دخت صفوی نے کہا کہ موت برحق ہے لیکن خلیق انجم جیسی شخصیت کے انتقال پر بے حد ملال ہوتا ہے۔ خلیق انجم بے حد فعال اور متحرک شخصیت تھے اور ان کی حسِ مزاح قابلِ تعریف تھی۔انہوں نے پوری ایمانداری اور تن دہی کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیا۔پروفیسر ابنِ کنول نے کہا کہ خلیق انجم نے دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے لئے بہت کام کیا۔ وہ دہلی کی زبان اور تہذیب سے بہت محبت کرتے تھے اور اردو زبان اگر زندہ ہے تو خلیق انجم جیسے جیالوں کے دم پر ہی ز ندہ ہے۔ وہ انجمن ترقیٔ اردو ہند کے ساتھ دوسرے اداروں کی ترقی کے لئے بھی کوشاں رہے۔ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے کہا کہ خلیق انجم بیک وقت علمی کاموں اور انتظامی امور کے ماہر تھے اور یہ ایسی صفت ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سراج اجملی نے کہا کہ خلیق انجم کی شناخت محقق کی تھی لیکن وہ بہت زندہ دل انسان تھے۔
آخر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر معید الرحمن نے تعزیتی قرارداد پیش کی۔ اس موقعہ پرپروفیسر طارق چھتاری، مہتاب حیدر نقوی، ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب، ڈاکٹر عارف حسن خاں، ڈاکٹر سیما صغیر، ڈاکٹر احتشام الدین، ڈاکٹر راشد انور راشد، ڈاکٹر مشتاق صدف، ڈاکٹر راحت ابرار، ڈاکٹر عمر رضا، ڈاکٹر خالد سیف اللہ، ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی، ڈاکٹر رفیع الدین کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالرس بھی موجود تھے۔