نئی دہلی: احمد بخاری نے شدید رنج و غم اور ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھوپال میں قانون کے محافظوں کے ذریعہ اقلیتی فرقے کے 8 افراد کے مبینہ قتل میں حساس دل رکھنے والے تمام انسانوں کو شدید تکلیف پہنچائی ہے۔
احمد بخاری نےالزام لگایا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف شدید اشتعال انگیزی کاماحول بنایا جارہا ہے۔ ملک کا سماجی ، اقتصادی اورسیاسی نظام ایک زبردست کشمکش اور اتھل پتھل سے دوچارہے۔آج پوراملک عجیب نازک دورسے گزررہاہے۔ ہرفرقے اورطبقے کے لوگ ایک عجیب وغریب ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ مزید کچھ ہونے والاہے۔مگریہ نہیں معلوم کہ جوہونے والاہے وہ کیاہوگا۔ملک ایسے لمحات سے گزررہاہے جن لمحات میں بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں اورحالات ایساپلٹاکھاتے ہیں کہ زندگی کے دھارے بدل جاتے ہیں۔
احمد بخاری نے کہا کہ آج ہندستانی جمہوریت کے سامنے ملک کے تمام باشندوں کے ساتھ برابر کا سلوک کی پالیسی اپنے ، شرافت اور تہذیبی اقدار اور امن و امان کے تعلق سے اہم سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ احمد بخاری نے الزام لگایا کہ لاقانونیت، تشدد اور بربریت کی قوتوں کے سامنے سب نے سرجھکادیاہے، ملک کی زمین بے قصورافرادکے خون سے رنگی جارہی ہے۔ایسے حالات میں انسانی اور مہذب ملک کے شہری کی حیثیت سے ہماراکیاکردار ہو ،اسکے بارے میں ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا احمد بخاری نے کہا کہ آج سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ یہاں انصاف ہوگایاناانصافی ، آزادی یا مساوات ہوگی یاجبر اور تعصب ،ایمانداری اور شرافت رہے گی یا بے ایمانی اوردرندگی، امن وامان ہوگا انہوں نے سوال کیا کہ اس ملک میں وطن پرستی اور حب الوطنی پر صرف ایک فرقے اور طبقے کی اجارہ داری ہوگی یا اس پر تمام فرقوں اورطبقوں کا حق ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے لئے قومی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ خیر سگالی لازم ہے اس لئے اب ملک کے عوام اور حکومت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ انصاف اور قانونی بالادستی کس طرح قائم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے دیکھاہوگاکہ مدھیہ پردیش کی بھوپال جیل توڑکرفرارہونے والے زیر سماعت آٹھ قیدیوں کاجس طرح انکاؤنٹرہواہے۔اس پر معمولی سوجھ بوجھ والاشخص بھی سوال کھڑا کر سکتا ہے۔ پولس اور انتظامیہ جس بھونڈے طریقے سے اسے تصادم قراردے رہی ہے اس سے ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہواہے۔اس معاملے میں ٹی وی چینلوں پر مسلسل نئے نئے ویڈیوز سامنے آرہے ہیں۔ اس سے عیاں ہورہاہے کہ یہ انکاؤنٹر فرضی ہے۔اور انسانیت کادرد رکھنے والے ہرانسان کے ذہن میں یہی سوال کھڑاہورہاہے کہ انہیں ماراگیاہے۔
لیکن افسوس تویہ ہے کہ سیکولرہندوستان جس کا سارانظام قانون اورآئین پر منحصر ہے۔جب تک عدالت کسی کو مجرم نہ ٹھہرادے ، کسی کو مجرم قرارنہیں دیا جاسکتا۔ یہ آٹھوں قیدی زیر سماعت تھے اور ان کو عدالت نے مجرم قرارنہیں دیا تھا۔ اس کے باوجود ان 8 قیدیوں کو دہشت گردکہاجارہاہے۔اس تشہیر سے پورا ملک شش وپنچ کے عالم میں ہے۔افسوس تواس بات کاہے کہ اس ملک میں ظالم کو ظالم اور ظلم کو ظلم نہیں کہاجاسکتا۔ ایسی صورت میں ظلم اور ظالم کو تقویت ملتی ہے۔
مولانا بخاری نے الزام لگایا کہ آج عدالت وقانون اس بات سے شرمندہ نظر آتا ہے کہ اگرپولس ہی مجرموں کا فیصلہ کرے گی ،توپھر ملک میں عدالتوں کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کے وکیل کاکہناہے کہ ان کے مقدمات اتنے کمزورتھے کہ وہ جلد باعزت رہاہونے والے تھے۔ ایسی باعزت رہائی کو چھوڑکروہ آٹھوں قیدی فرارہونے کی کیوں سوچتے؟