کابل۔ افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم پر ایک سینیئر افغان اہلکار نے گذشتہ ماہ نے انھیں جبرا اغوا کرکے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ الزام شمالی صوبہ جوزجان کے سابق گورنر احمد ایشچی کی جانب سے سامنے آیا ہے۔
خیال رہے کہ جنرل دوستم کا تعلق بھی اسی صوبہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نائب صدر اور دس دیگر افراد نے انھیں جنرل دوستم کی رہائش گاہ پر پانچ دن تک جبرا قید کے دوران زیادتی کا نشانہ بنایا۔
جنرل دوستم نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے ‘اشتعال انگیزی’ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ احمد ایشچی کو انھیں نہیں بلکہ ملک کی انٹیلی جنس سروس نے حراست میں لیا تھا۔ جنرل دوستم کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘انھیں (احمد ایشچی( افغان سکیورٹی فورسز نے حزب مخالف کو مالی مدد فراہم کرنے اور سلامتی کے معاملات کے الزامات پر حراست میں لیا تھا۔’
بیان کے مطابق ‘کچھ عرصے سے چند نامعلوم حلقوں کی جانب سے نائب صدر اول کے خلاف تخریبی تحریک چلائی جارہی ہے۔’ جنرل دوستم ازبک نژاد افغان اور سابق جنگجو ہیں اور ان پر افغان میں جاری طویل خانہ جنگی کے دوران شدید مظالم ڈھانے کے الزامات عائد کیے جاچکے ہیں۔ سنہ 2014 میں انھوں نے ملک کی اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
جنرل دوستم سنہ 2014 میں حکومت کا حصہ بنے تھے
احمد ایشچی کی جانب سے مبینہ زیادتی کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز 24 نومبر کو ان کے اغوا سے ہوا۔ تاہم ان تفصیلات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان روایتی کھیل بزکشی کے بعد اغوا کیا گیا جو ان کی اور جنرل دوستم کی ٹیموں کے مابین کھیلا گیا تھا۔
احمد ایشچی کا کہنا تھا کہ جنسی زیادتی کے بعد انھیں افغان سکیورٹی سروس کے دفتر پہنچا دیا گیا اور ان کی رہائی ہوئی۔ افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے ان الزامات کی جامع تحقیقات کی یقین دہانی کروائی ہے۔