سری نگر:وادی کشمیر میں7 ستمبر 2014 ء کو آنے والے تباہ کن سیلاب کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ تباہ کن سیلاب کی دوسری برسی ایک ایسے وقت آئی ہے جب وادی میں حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی 8 جولائی کو ہلاکت کے بعد سے جاری ہڑتال، کرفیو، پابندیوں، ہلاکتوں اور بے چینی کا سلسلہ 61 ویں روز میں داخل ہوگیا اور موجودہ صورتحال کے باعث اہلیان وادی کے ذہنوں سے یہ نکل چکا ہے کہ انہیں آج ہی کے دن تاریخ کے سخت ترین دن کا سامنا کرنا پڑا تھا۔دارالحکومت کے مضافاتی علاقہ بمنہ کے ایک رہائشی غلام مصطفی وانی نے سیلاب کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے یو این آئی کو بتایا ‘مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بارش کا سلسلہ یکم ستمبر کو شروع ہوا تھا۔ بمنہ ایک نشیبی علاقہ ہے ۔ جب بارش کا سلسلہ بغیر رکے جاری رہا تو پانی کی سطح میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا جس کے نتیجے میں 4 ستمبر سے ہی ہماری راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ بالآخر 7 ستمبر کی صبح کو میں نے اپنے مسکن کو پانی میں ڈوبا ہوا پایا۔ میں اور میرے کنبے کے اراکین بعدازاں ایک کشتی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل ہوئے تھے ‘۔ جہاں ستمبر 2014 ء کو آج ہی کے دن دریائے جہلم کی قہر آمیز موجوں نے کشمیر کے بیشتر علاقوں کو اپنی آغوش میں لے کر کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا وہیں آج دریائے جہلم کا پانی بالکل خاموش ہے اور ایسا لگتا نہیں کہ اس نے آج سے ٹھیک دو برس قبل ایک بڑا قہر برپا کیا ہو جس کے نتیجے میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہونے کے علاوہ تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی ادارے اور دیگر ڈھانچے تباہ ہوگئے ہوں۔
سیلاب میں شدید متاثر ہونے والے جواہر نگر علاقہ کے ایک رہائشی نے بتایا ‘جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رہائشی مکانات کو گرتے ہوئے دیکھا تو مجھے پورا یقین ہوگیا تھا کہ یہ میری اور میرے کنبے کے اراکین کی زندگی کا آخری دن ہے ۔ چار روز بعد مجھے اور میرے کنبے کو ایک رشتہ دار نے آکر بچالیا تھا’۔ جواہر نگر کی طرح سری نگر کے دوسرے درجنوں علاقوں میں لوگ اپنے ہی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے ۔سری نگر کا تجارتی مرکز ‘تاریخی لال چوک’ سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔ ریاستی حکومت کے مطابق سیلاب کے باعث کشمیر کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔سیلاب سے 280 سے زائد جانیں زیاں ہوئی تھیں ، 5642 دیہات متاثرہوئے تھے جن میں سے 800 دیہات کئی ہفتوں تک تک زیر آب رہے تھے جس کے نتیجے میں 12 لاکھ 50 ہزار کنبے متاثر ہوئے تھے ۔
سیلاب سے 83 ہزار سے زائد پکے رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 96 ہزار پکے رہائشی مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔اس کے علاوہ 21 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 54 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔ تاہم ایک الگ رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب سے قریب تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی اداروں اور دیگر ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ایک قومی ہندی اخبار ‘دینک جاگرن’ سے وابستہ فوٹو جرنلسٹ شفقت صدیقی جہانگیر چوک کے نذدیک تباہ کن سیلابی ریلوں کو اپنے کیمرے میں قید کرنے کے دوران بہہ گئے تھے جن کی لاش چار روز بعد دو کلو میٹر دور بتہ مالو میں برآمد کی گئی تھی۔جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے باغبانی، زراعت، شہرہ آفاق زعفران سمیت زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا وہیں تاریخی لال چوک اورسری نگر کے دیگر حصوں میں قائم بازاروں کی رونقیں ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔کشمیر اکنامک الائنس کے مطابق سیلاب کے باعث وادی کشمیر میں ایک لاکھ دکانیں متاثر ہوئی تھیں جبکہ کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن نے سری نگر میں متاثر ہونے والی دکانوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد بتائی تھی۔
ایک تخمینے کے مطابق سری نگر میں تباہ کن سیلاب سے 60 ہزار کے قریب مکانات کو نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں 60 ہزار کنبے بے گھر ہوگئے تھے ۔ سیلاب میں جن متاثرین کے گھر زمین بوس ہوئے تھے اور جنہیں لاکھوں روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا، انہیں ریاستی حکومت نے نہایت ہی معمولی رقم بطور ریلیف فراہم کی۔ جبکہ تاجروں جنہیں کروڑوں کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا، میں اکثریت کوآٹے میں نمک کے برابر ریلیف فراہم کی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق تاجر برادری کو مجموعی طور پر 70 ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ تاہم وادی میں سیلاب آنے کے بعدمختلف دینی، فلاحی اور سماجی تنظیموں نے سیلاب متاثرین کی جو مدد کی وہ قابل تحسین ہے ۔ اِن تنظیموں نے نہ صرف ترجیحی بنیادوں پر سیلاب متاثرین تک امدادی سامان پہنچایا تھا بلکہ چند ایسے بھی ادارے ہیں جنہوں نے سیلاب سے بے گھر ہوئے کنبوں کے لئے رہائشی مکانات تعمیر کرنے کا کام ہاتھ میں لیا ہے ۔اس حوالے سے دارالخیر میرواعظ منزل نامی فلاحی ادارے کا کردار انتہائی قابل تحسین ہے ۔ یہ ادارہ حریت کانفرنس (ع) کے چیرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق کی سرپرستی میں کام کررہا ہے۔
وادی میں سیلاب آنے کے فوراً بعد اس ادارے نے سیلاب سے حد درجہ متاثرہ افراد کی امداد اور بازاربادکاری کے لئے ‘اکھ اکس’ (سب مل کر) پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت مکانات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ متاثرین تک امداد پہنچانے کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ مذکورہ پروگرام کے تحت سب سے پہلے پنڈت برادری کے متاثر پنڈت موتی لال دھرجی ساکنہ مندرباغ کو مکان کے مالکانہ حقوق اور اس کی کنجی حوالے کی گئی تھی۔ پنڈت موتی لال دھرجی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نوے کی دہائی میں جب بیشتر پنڈت وادی چھوڑ کر چلے گئے تو موتی لال نے یہاں ہی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ رہنے کو ہی ترجیح دی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ 25 برسوں کے پرآشوب دور میں سال 2014 ء کا ستمبر ایک ایسا مہینہ گذرا جس نے اہلیان وادی کو کبھی نہ فراموش ہونے والی مایوسیاں اور پریشانیاں دیں۔ سیلاب کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 68 برس میں پہلی بار وادی میں ریڈیو کشمیر کی نشریات معطل ہوئی تھیں۔ 7 ستمبر کو ہی وادی میں دوردرشن کی نشریات بھی معطل ہوئی تھیں۔ریڈیو کشمیر اور دوردرشن کے ساتھ ساتھ نجی ایف ایم اسٹیشن بگ 92.7 ایف ایم کی آواز بھی خاموش ہوگئی تھی ۔
اخباروں کی اشاعت رُک گئی تھی اور کشمیر کا ملک کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہوگیا تھا ۔ جہاں ریڈیو کشمیر نے معمول کی نشریات سیلاب کے قریب ڈیڑھ ماہ کے بعد جبکہ دور درشن کیندر سری نگر نے سیلاب کے اڑھائی ماہ بعد اپنی معمول کی نشریات بحال کردی تھیں۔ 7 ستمبر سے مواصلاتی نظام بھی ٹھپ ہوگیا تھا جس سے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ نہ باپ کو بیٹے کی خبر اور نہ بیٹے کو باپ کا اتاپتا۔ بجلی ترسیلی لائنوں کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا جس کے باعث بیشتر علاقے گپ اندھیرے میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتحال میں جہاں اسپتالوں کا فعال رہنا انتہائی ضروری مانا جاتا ہے وہیں کشمیر کے بیشتر اسپتال زیر آب آگئے تھے جس کے بعد ان میں زیر علاج مریض اور ان کے تیمارداروں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ وادی کشمیر میں کچھ سیلاب زدہ علاقوں میں میتوں کی تجہیز و تکفین پانچ چھ روز کے بعدانجام دی گئی۔بیشتر علاقوں میں لوگوں کو ایکا ایکی اسکولوں اور مسجدوں میں پناہ لینا پڑی تھی۔
تاہم محفوظ مقامات پر رہائش پزیر مقامی لوگوں نے کشمیریت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے متاثرہ لوگوں خواہ وہ مسلم ، ہندو یا سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، اپنے گھروں، مساجدوں اور اسکولوں میں نہ صرف جگہ دی تھی بلکہ لنگر کا اہتمام کرکے کھانے کا انتظام کیا تھا اور دیگر ضروری چیزیں بھی فراہم کی تھیں۔ ان میں غیر ریاستی مزدوروں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل تھی۔ سیلاب کے دوران ریاستی حکومت غائب رہی اور جب نمودار ہوئی تب تک انڈین ائر فورس، فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف ، فائیر اینڈ ایمرجنسی سروس، نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس، اسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فورس کی ٹیموں، سیول ڈیفنس، رضاکار تنظیموں اور خاص طور پر کشمیری نوجوانوں نے سیلاب میں پھنسے ہوئے لاکھوں لوگوں کو ریسکیو کرلیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ سیلاب نے شروع میں جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ اور کولگام میں شدید تباہی مچادی تھی اور بعد ازاں 6 اور 7 ستمبر کی درمیانی رات کے دوران اس نے سری نگر کے سیول لائنز علاقوں خاص طور پر شیو پورہ، ڈل گیٹ، بٹہ وارہ، نٹی پورہ، پادشاہی باغ، سونہ وار، راج باغ، گونی کھن مارکیٹ، لال چوک، جہانگیر چوک، مولانا آزاد روڑ، مائسمہ، مہجورنگر، لسجن، چھانہ پورہ، جواہر نگر، کرن نگر، نوپورہ، قمرواری، بمنہ، وزیر باغ کو اپنی لپیٹ میں لیکران علاقوں میں زبردست تباہی مچادی تھی۔
ان علاقوں میں سیلابی پانی مکانوں کی دوسری منزلوں تک پہنچ گیا تھا۔ یہ علاقے دریائے جہلم کا سیلابی پانی بندوں کے اوپر سے بہنے اور کچھ مقامات پر حفاظتی بندوں میں شگاف پڑنے سے زیر آب آگئے تھے ۔ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ اور بانڈی پورہ، وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل کے بھی بیشترعلاقے زیر آب آگئے تھے جس کے باعث ان اضلاع میں بھی بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔