صوبائی حکومت، ریاستی ادارے ناکام ہوئے؛سپریم کورٹ
اسلام آباد۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سانحہ کوئٹہ پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے سماعت 20 ستمبر کو مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کو واقعہ کی تفصیلات اکٹھی کرنے کی ہدایت کی ہے اور آئی جی، چیف سیکرٹری، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹسز جاری کردئیے گئے۔ وکلا نے چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئی جی بلوچستان اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت کو دھماکے کی اب تک کی تحقیقات اور متاثرین کو امدادی رقوم کی فراہمی سے متعلق آگاہ کریں گے۔ چیف جسٹس نے اسلام آباد میں بیرسٹر فہد ملک کے قتل کا بھی نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ اب تک کی تحقیقاتی رپورٹ ایک ہفتے میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے۔ رجسٹرار آفس نے نوٹ لکھا ہے کہ سانحہ کوئٹہ نے گورننس پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے، صوبائی حکومت اور سکیورٹی ادارے بری طرح ناکام ہوئے۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے کوئٹہ میں ہلاکتوں اور زخمیوں سے متعلق تفصیلات جمع کرانے کے علاوہ مقدمے کی تفتیش میں پیش رفت کے بارے میں بھی عدالت عظمیٰ کو آگاہ کرنے کے بارے میں حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے بیان میں کہا گیا کہ سانحہ کوئٹہ نے پورے ملک میں عموماً اور بلوچستان میں خاص طور سے گورننس کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ جس منظم انداز میں یہ حملہ کیا گیا، اس سے ریاستی مشینری کی کارکردگی پر سوال اْٹھ رہے ہیں جبکہ سکیورٹی انتظامات کی کمی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کی جانب اشارہ ہے جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ انتظامیہ کی جانب سے سکیورٹی انتظامات کی کمی آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت فراہم کی گئی زندگی اور بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ کوئٹہ حملے کے بعد کی صورتحال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ واقعے کو بھلایا جا چکا ہے اور مجرموں کو پکڑنے یا اس طرح کے حملوں کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے ریاستی وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔