شپ ٹو غزہ” کے سویڈش ترجمان کا عدالتی فیصلے کے بعد اسرائیل سے بحری جہاز کی مرمت کا مطالبہ”
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے حکومت کو سنہ 2012ء میں پکڑے گئے ایک بحری امدادی جہاز کے مالک کو ہرجانے کے طور پر چالیس ہزار شیکلز (ساڑھے دس ہزار ڈالرز) ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اس جہاز کو ریاست نے غیر قانونی طور پر پکڑا اور ضبط کیا تھا۔
وزارت انصاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں جہاز کو فوری طور پر چھوڑنے کا بھی حکم دیا ہے”۔
فن لینڈ کا پرچم بردار یہ بحری جہاز گذشتہ چار سال سے اسرائیل کی شمالی بندرگاہ حیفا پر لنگر انداز ہے۔غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے اس بحری جہاز پر اسرائیلی کمانڈوز نے دھاوا بول دیا تھا اور اس کو قبضے میں لینے کے بعد حیفا کی بندرگاہ کی جانب لے گئے تھے۔
”شپ ٹو غزہ” کے نام سے اس امدادی مہم کے ترجمان ڈرور فیلر نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ جہاز اسٹیلے سمندر میں تیر تو سکتا ہے لیکن یہ سمندری سفر کے لیے ناکارہ ہوچکا ہے۔
انھوں نے سویڈن میں اپنے گھر سے ٹیلی فون کے ذریعے بتایا ہے کہ ”آخری مرتبہ ایک سال یا شاید نو ماہ قبل ہمارے ایک آدمی نے اس چھوٹے جہاز کا معائنہ کیا تھا۔اس وقت اس کی حالت تسلی بخش نہیں تھی”۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت یہ نمکین پانی میں تھا اور ہمیں اس کے انجن کی حالت کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ چالو حالت میں ہے۔ہم اس کو سمندر میں چھوڑنے کی حالت کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے ہیں۔ہم یہ مطالبہ کریں گے کہ اس کو سمندر میں چھوڑا جائے تاکہ اس کو ہم وہاں چلا کر دیکھ سکیں”۔
اسرائیلی نژاد فیلر سمیت گیارہ سویڈش شہری اور دوسرے کارکنان اس امدادی جہاز کو غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں کے لیے لے کر آئے تھے لیکن اس کے ساحل کے نزدیک آنے کے بعد اسرائیلی بحریہ کے کمانڈوز نے اس پر دھاوا بول دیا تھا اور انھوں نے اس پر سوار ناروے ، کینیڈا ،سپین ،اٹلی ،یونان اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے امدادی کارکنان کو گرفتار کر لیا تھا اور بعد میں انھیں بے دخل کر دیا تھا۔
فیلر نے ماضی میں اسرائیلی شہریت ترک کردی تھی اور سویڈش شہریت کو برقرار رکھا تھا۔اسرائیلی عدالت کے فیصلے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ شپ ٹو غزہ اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے دعویٰ دائر کرے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں نے چار سال تک جہاز پر قبضہ کیے رکھا ہے۔اب عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ اس کو غیر قانونی طور پر ضبط کیا گیا تھا۔اس لیے ہم مالی نقصانات کے ازالے کے لیے ہرجانے کی وصولی کی کوشش کریں گے اور یہ عدالت کے حکم میں بیان کردہ رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے سنہ 2006ء سے غزہ کی پٹی کی بحری اور بری ناکا بندی کررکھی ہے۔2007ء میں حماس کے غزہ پر کنٹرول کے بعد اسرائیل نے یہ محاصرہ سخت کردیا تھا۔اس کے بعد سے اسٹیلے سمیت متعدد بحری امدادی مہمیں غزہ کی جانب روانہ کی جاچکی ہیں لیکن ہر مرتبہ اسرائیلی بحریہ کے کمانڈوز ان امدادی بحری جہازوں پر قبضہ کرکے انھیں اسرائیلی بندرگاہوں کی جانب لے جاتے رہے ہیں۔
سنہ 2010ء میں ترکی کی جانب سے بھیجے گئے فریڈم فلوٹیلا کے نام سے بحری امدادی قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کر کے دس ترک رضاکاروں کو شہید کردیا تھا اور متعدد کو گرفتار کر لیا تھا۔وہ قافلے میں شامل امدادی جہاز کو چھین کر اسرائیلی بندرگاہ کی جانب لے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی اور سیاسی تعلقات منقطع ہوگئے تھے اور وہ گذشتہ ماہ ہی بحال ہوئے ہیں۔