ممبئی : حج 2017 کی حج سبسڈی میں اچانک 200 کروڑ روپے کی کمی کیے جانے سے مسلمانون میں ہلکی سی ناراضگی پائی جاتی ہے ،لیکن مرکزی وزیر برائے ا قلیتی امور مختار عباس نقوی کے ذریعہ اس کی بھرپائی کے لیے بحری جہاز چلائے جانے کے اعلان پر ہندوستانی مسلمانوں نے راحت کی سانس لی ہے مگر اس بارے میں بھی شکوک وشبہات ہیں کہ کیا یہ ممکن ہوسکے گا یا نہیں۔ ویسے ایک عام خیال ہے کہ فی الحال یہ ممکن نہیں ہے۔
حج کمیٹی آف انڈیا کے ایک ذرائع کا یہی کہنا ہے کہ بحری جہاز بند ہوئے دودہائی گزرچکی ہے اور دوبارہ اس نظام کو نافذ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا جب تک ہند۔سعودی عرب حکومتوں کے درمیان ایک باہمی فیصلہ نہ ہوجائے تب تک یہ مرحلہ دشوار کن ہے۔
حج کمیٹی کے سابق چیف ایکزیکٹیوافسرشبیہ احمد نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے ،ان کا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے ،لیکن ایک عرصہ قبل اس کے بند ہوجانے کے بعد دوبارہ اس کو شروع کرنا کافی دشواری بھرا مرحلہ ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ دونون ملکو ں کے درمیان اس امور پر سنجیدگی سے بات چیت ہونی چاہئے ۔اس سلسلے میں اگر صحیح حکمت عملی اپنائی جائے تو ممکن ہوسکتا ہے۔ہاں سہولیات وغیرہ پربھی غور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ بحری جہاز کے شروع کیے جانے کے اعلان سے پہلے ایک جامع منصوبہ بندی ضروری ہے ،ورنہ یہ سبز باغ جیسا ہوگا۔
سابق اے سی پی اور عوامی وکاس پارٹی کے سربراہ شمشیر خان پٹھان بہتر سہولیات کے ساتھ اس بحری جہاز کے منصوبے کے حق میں ہیں ،ان کاکہنا ہے کہ حکومت نے کیا حکمت عملی تیار کی ہے ،پہلے وہ دیکھنا ہوگا البتہ ایسا کوئی اعلان کرنے سے پہلے جامع منصوبہ بندی ضروری ہے۔
عازمین حج کے امور سے وابستہ ایک سماجی رکن سلیم الوارے کاکہنا ہے کہ جدید سہولیات کی فراہمی اورایسے تیز رفتاربحری جہازمہیا کرائے جانے کے ساتھ ہی کرایہ اور کل اخراجات میں کمی ہوتی ہے تو ایسے لوگ جن کا بجٹ کم ہے وہ سفر کافائداٹھا سکتے ہیں اورایک بڑی تعداد کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دوران سفر حج ارکان کی بہتر تربیت حاصل ہوجائے جوکہ کافی ضروری امر ہے۔
کانگریس کے سنیئر لیڈراورراجیہ سبھا ممبر حسین دلوائی نے سبسڈی ختم کرنے کے معاملہ کو جلدی بازی میں اٹھایا گیا ایک نامناسب قدم قراردیتے ہوئے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔وہ مزید سہولت دینے کے حامی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دورافتادہ علاقوں کے عازمین حج کو 2022کے بعد بھی سبسڈی دی جائے اور حکومت محکمہ شہری ہوابازی کے ہمراہ بیٹھ کر ایسی حکمت عملی تیار کرے کہ عازمین حج کو کرایہ میں رعایت ملے ۔بحری جہاز کی تجویز پر بھی سنجیدگی سے غورکیا جائے۔
عازمین حج کی ایک تنظیم کے روح روان ایڈوکیٹ قاضی مہتاب حسینی بھی بحری جہاز کے حق میں ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ یہ حاجیوں کے مفاد میں ہے۔حکو مت چاہئے تو امکان ہے کہ دوبارہ شروعات ہوجائے۔لیکن سعودی سرکار نے بڑی تعداد میں بحری جہاز بند بھی کردیئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اکبری ،محمدی اور نورجہاں جیسے جہازوں کے بجائے تیز رفتار چلائے جائیں تو بہتر ہوگا۔ان سے وقت بچے گا اور حجاج کی تربیت بھی ان آٹھ دن کے سفر میں ممکن ہوسکے گی۔عبادت کا موقع ملے گا اور زیادہ سامان اورآب زم زم لانے کی سہولت بھی حاصل ہوگی۔کرایہ میں بھی کمی ہوگی جوکہ اہم معاملہ ہے اور تعداد بھی بڑھ جائے گی۔سبسڈی ختم ہونے سے حج کا سفر کافی دشوارکن ہورہا ہے۔عام مسلمان کے لیے مالی مسئلہ پیدا ہوگا۔