لیگوس۔ نائجیریا کی فضائیہ نے ملک کے شمال مشرقی علاقے رن میں حادثاتی طور پر حملہ کر کے کم از کم 52 عام شہریوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں امدادی اداروں کے کارکن شامل ہیں، اور ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں اس کے عملے کے چھ افراد مارے گئے ہیں۔ نائجیریا کے صدر محمد بخاری نے اس جانی نقصان پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے صبر کی درخواست کی ہے۔ ان کے ترجمان نے کہا کہ صدر بخاری کی انتظامیہ ریاست بونو کی حکومت کو اس ‘افسوس ناک غلطی سے نمٹنے’ میں مدد دے گی۔
بین الاقوامی امدادی ادارے میدساں ساں فرنتیئر کے مطابق 200 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں اور اس نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ زخمیوں کے انخلا میں مدد دے۔ میدساں ساں فرنتیئر کی ہنگامی سروس کے سربراہ ہیوگس رابرٹ نے کہا: ’50 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ ہماری ٹیم نے لاشیں گنی ہیں۔ بمباری سے ہونے والے دو دھماکوں میں دو سو سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ حملہ نائجیریا اور کیمرون کی سرحد کے قریب کیا گیا جہاں فوج بوکرحرام کے جنگجوؤں سے لڑ رہی ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل لکی ارابور نے کہا کہ جیٹ طیارے کے ہواباز نے غلطی سے سمجھ لیا کہ وہ جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اطلاع ملی تھی کہ اس علاقے میں بوکوحرام کے جنگجو جمع ہو رہے ہیں۔
میدساں ساں فرنتیئر نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو بوکوحرام کے حملوں سے بھاگ کر پناہ کی تلاش میں آئے ہوئے تھے۔ ادارے کے ڈائریکٹر آف آپریشنز ژاں کلیمن کابرول نے کہا: ‘ان بےیار و مددگار لوگوں پر، جو پہلے ہی شدید تشدد سے بھاگ کر آئے تھے، یہ حملہ صدمہ انگیز اور ناقابلِ قبول ہے۔’ میدساں ساں فرنتیئر کے ترجمان ایتیئن لرمیت نے نائجیریائی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ زخمیوں کو زمینی اور فضائی راستوں سے نکالنے کا بندوبست کرے۔
انھوں نے کہا: ‘ہماری چاڈ اور کیمرون میں موجود میڈیکل اور سرجیکل ٹیمیں زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا اپنی ٹیموں سے رابطہ ہے جو اس حملے کے بعد صدمے کی حالت میں ہیں۔’ یہ نائجیریا میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور یہ اس دوران پیش آیا ہے جب حکومت ملک کے شمال میں بوکوحرام کے خلاف بقول اس کے آخری کارروائیاں کر رہی ہے۔
نائجیریا کی فوج کے ترجمان جنرل رابع ابوبکر نے کہا کہ بوکوحرام کے کچھ بچے کھچے عناصر رن کے باہر دیکھے گئے تھے اور فوج نے انھیں ختم کرنے کے لیے کارروائی کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ جب فوج کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس کے بعد ’درد ہی درد‘ تھا۔ تاہم ان کے مطابق ’اس قسم کی فوجی کارروائی میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ہو ہی جاتی ہیں۔ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، لیکن یہ جان کر نہیں کیا گیا تھا۔‘