اگست میں داعش کے شدت پسندوں سے واگزار کرائے گئے ایک شامی قصبے کے بچے، تقریباً تین سال کی غیر حاضری کے بعد، اپنے کلاس رومز میں واپس آ چکے ہیں۔ احمد حسن شمالی شہر، منبج کے ایک ابتدائی اسکول میں استاد ہیں، جس تعلیمی ادارے کے دروازے دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں شکر ادا کرتا ہوں کہ بچے اپنی نشستوں پر لوٹ آئے ہیں”۔
سنہ 2014 میں جب داعش حملہ آور ہوا، اُس نے اسکولوں پر قبضہ جمایا، جنھیں فوجی صدر دفاتر کے طور پر استعمال کیا گیا۔ سترہ برس کے عقیل حاجی محمد طالب علم ہیں۔ اُن کے بقول، ”اُنھوں نے تمام اسکولوں کو بند کردیا۔ اُنھوں نے اساتذہ اور طالب علموں کے اسکول میں داخل ہونے پر بندش عائد کردی”۔
طالب علم نے بتایا کہ داعش کے لڑاکوں نے اُن کے ثانوی جماعت کے اسکول کو ہتھیار ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک دوسرے اسکول کو شرعی عدالت کے طور پر استعمال کیا گیا، جہاں مقامی لوگوں کے خلاف شریعت کے قوانین کے تحت دائر کردہ مقدمات چلائے گئے۔
محمد اب تک ہائی اسکول پہنچ گیا ہوتا، لیکن وہ تین سال پیچھے رہ گیا ہے، اور اُنھیں معلوم نہیں کہ اِس کا کیا مداوا ممکن ہے۔ اتنے برسوں کے دوران، داعش نے کچھ اسکولوں کی عمارتوں میں مذہب کے انتہاپسند نظریات کی تعلیم دی۔ تاہم، متعدد خاندانوں نے داعش کی سخت گیر تعلیم سے دوری اختیار کیے رکھی۔
منبج کے زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجا کرتے تھے، چونکہ وہ داعش کے زیرِ کنٹرول تھے۔ یہ بات ایک مقامی اخباری نمائندے، ولادیمیر وان ولجن برگ نے کہی ہے، جنھوں نے اس قصبے کو آزاد ہوتے دیکھا ہے۔ بقول اُن کے، ”والدین پریشان تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے بچوں پر داعش کے نظریات کا رنگ چڑھ جائے”۔
لڑائی سے قبل، منبج کی آبادی 80000 تھی۔ قصبے میں 17 اسکول تھے، جن میں ابتدائی، مڈل اور ہائی اسکول شامل تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ داعش کے پسپا ہونے کے بعد صرف پانچ اسکول دوبارہ کھلے ہیں، جن کی گنجائش محدود ہے۔
استاد، حسن نے بتایا کہ ”ہمیں کئی دشواریاں درپیش ہیں۔ ہمارے پاس کوئی معیاری نصاب نہیں، جب کہ ہمارے پاس تعلیم دینے والے اساتذہ انتہائی کم ہیں”۔
یہ فیصلہ کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے آیا کیا تدریسی طریقہ کار اپنایا جائے۔ منبج میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والا نصاب اُس وقت ختم ہوا جب شام کی خانہ جنگی کے آغاز پر اِس قصبے کا کنٹرول باغی گروپ کے حوالے ہوا۔ پھر داعش نے منبج پر قبضہ جمایا، جب کہ اب یہاں کُرد افواج کا کنٹرول ہے۔