اسلاما باد۔ ایرانی فوجی سربراہ کی دھمکی پر پاکستان کا ایران سے احتجاج جتایا۔ پاکستان نے ایرانی افواج کے سربراہ کی جانب سے پاکستانی علاقے میں شدت پسندوں کے ‘محفوظ ٹھکانوں’ کو نشانہ بنانے کی دھمکی پر ایران سے احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کے محکمۂ خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنردوست کو دفترِ خارجہ طلب کر کے ان سے میجر جنرل محمد باقری کے بیان پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔
بیان کے مطابق ایرانی سفیر کو مطلع کیا گیا کہ اس قسم کے بیانات دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کی روح کے منافی ہیں۔ دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ تین مئی کو ایرانی وزیرِ خارجہ کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ممالک نے سرحدی معاملات پر بھی تعاون میں اضافے پر اتفاق کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ایران پر زور دیا ہے کہ مستقبل میں برادرانہ تعلقات کو متاثر کرنے والے بیانات سے گریز کیا جائے۔
خیال رہے کہ میجر جنرل محمد باقری نے پیر کو ایک بیان میں پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان نے سرحد پار ایرانی علاقے میں حملے کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران پاکستان میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر دہشت گردوں کے حملے جاری رہے تو ہم ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں گے چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔’
میجر جنرل محمد باقری کا کہنا ہے کہ اگر دہشت گردوں کے حملے جاری رہے تو ایران ان کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ جنرل باقری کا یہ بیان گذشتہ ماہ پاکستان اور ایران کے سرحدی مقام میرجاوا میں دس ایرانی سرحدی محافظین کی ہلاکت کے بعد آیا ہے۔
ایران نے اس حملے کے لیے سنّی شدت پسند گروپ ‘جیش العدل’ کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ان محافظین کو پاکستانی علاقے سے دور مار بندوقوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ 2014 میں بھی ایران نے جیش العدل کے ہاتھوں اپنے پانچ سرحدی محافظین کے اغوا کے بعد ان کی بازیابی کے لیے ایرانی فوجی اہلکار پاکستان بھیجنے کی بات کی تھی۔ اس وقت پاکستان نے کہا تھا کہ اگر ایران ایسا کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی اور بعدازاں یہ معاملہ اغواکاروں سے بات چیت کے بعد حل کر لیا گیا تھا۔