اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈی ہائیڈریشن کی تکنیک استعمال کی گئی اور مختلف طاقتور جوسز اور ڈرنکس کو پاؤڈر کی صورت میں مخصوص پاؤچز میں محفوظ کر لیا گیا،جس میں پینے کے لیے سوراخ ( نوزل) یا اسٹرا لگا ہوا ہوتا ہے، خلاباز اس پاؤچ میں پانی شامل کرکے اس کا مائع ڈرنک بناکر نوزل سے پی لیتے ہیں، مگر ان ڈرنکس میں الکوحل کی مقدار بہت کم یا نہ ہونے کے برابر رکھی جاتی ہے، کیونکہ خلاء میں جو سب سے بڑا مسئلہ خلابازوں کو اب تک درپیش رہا ہے وہ دوران نیند یا مرکز سے باہر مرمت کے کاموں کے دوران گم ہوجانے کا ہے، اس کے حل کے لیے اب خلائی لباس میں متعدد نئے فیچرز متعارف کروائے گئے ہیں، جن میں لوکیشن سنگل بھی شامل ہیں، جو خلاء میں کسی مخصوص جگہ پر انکی درست نشاندہی کر سکیں گے۔
اسی طرح اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ناسا دیگر اداروں کی مدد سے خلاء کو مزید انسان دوست بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جس سے امکان ہے کہ آنے والے چند سالوں میں خلاء بھی انسان دوست بن جائے گی، اگرچہ اب بھی خلاء میں انسان ماضی کے مقابلے کم مشکلات کا شکار ہے، تاہم نئے منصوبوں سے اس میں مزید بہتری آنے کی امید ہے۔
حال ہی میں ناسا کی جانب سے مریخ مشن کے لیے باقاعدہ بھرتیوں کے اعلان کے بعد ان تحقیقات میں مزید تیزی آگئی ہے اور کئی معروف بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں’اسٹوڈنٹس اسپیس فلائٹ’ کے تجرباتی پروگرام آغاز کیا گیا ہے،جس میں طلباء و طالبات مائیکرو گریویٹی میں مخصوص ‘پرو بایوٹک ‘ پر تجربات کر رہے ہیں، جن سے مستقبل کے خلائی مشنز میں انسانی صحت کے حوالے سے مزید پیش رفت ممکن ہوگی اور خلا بازوں کے علاوہ اسپیس ایکس کی تجرباتی خلائی سفر کے فلائٹس پر جانے والے عام افراد کو بھی صحت کے حوالے سے کم خطرات کا سامنا ہوگا۔