اس کے علاوہ اس پراجیکٹ میں خلاباز جان گلین کی صحت کے حوالے سے بھی متعدد خدشات درپیش تھے، کیونکہ اس دور میں خلاء کے بارے میں سائنسدانوں کی معلومات بہت کم تھی اور وہ یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھے کے زمین کے گرد چکر کاٹنے کے دوران انسان کے جسم و اعصاب پر کیسے اور کتنے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، علاوہ ازیں یہ بھی کسی کو پتہ نہ تھا کہ جان گلین کو مشن کے دوران کس قسم کی خوراک فراہم کی جائے؟
بھرپور تحقیقات کے بعد جان گلین کو ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں پلازمہ کی طرح غذاء فراہم کی گئی، اس ٹیوب کو دبا کر غذاء منہ میں ڈالی جاتی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ جہاں خلائی سفر میں تیزی سے پیش رفت ہوئی، وہیں خلابازوں کو فراہم کی جانے والی غذاء کی کوالٹی اور طریقوں میں بھی مسلسل تحقیق کے ساتھ بہتری آتی گئی، اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ خلاء میں کچھ دن قیام کے لیے ٹھوس غذاء نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ’ نو گریویٹی’ کے باعث خلاء میں ہر شے معلق حالت میں ہوتی ہے۔