نیویارک۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں بچے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر لیبیا سے اٹلی کا سفر کر رہے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق تقریباً 26,000 بچوں نے پچھلے سال بحر اوقیانوس پار کیا ان میں زیادہ تر تنہا تھے۔
یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بچوں کی ایک بڑی تعداد سمگلرزکے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے۔ مگر ملک بدری یا پکڑے جانے کے خطرے کی وجہ سے بہت ہی کم اس زیادتی کی شکایت کرتے ہیں۔ ادارے کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیبیا میں گرفتار ہونے والے افراد کے سینٹرز میں غذا، پانی اور طبی امداد کی سہولیات کی سخت کمی ہے۔ پچھلے دو سال کے دوران ایک بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والوں کی کہانی کا ایک افسوسناک حصہ تنہا سفر کرنے والے بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ ہے۔
یونیسف کی رپورٹ میں غلامی، تشدد اور جنسی زیادتی کے ہولناک واقعات رقم کیے گئے ہیں۔ یہ واقعات تنہا ہجرت کرنے والے بچوں کے ساتھ اٹلی تک کے خطرناک سفر کے دوران پیش آئے۔ ادارے کے ڈپٹی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر جسٹن فورسائیتھ کا کہنا ہے کہ سفر کے دوران کئی بچوں کا ریپ ہوتا ہے اور کچھ مار دیے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انٹرویو کیے جانے والی بچوں اور عورتوں میں نصف سے زیادہ کے ساتھ سفر کے دوران جنسی زیادتی کی گئی۔ ایسے واقعات کئی بار اور مختلف مقامات پر پیش آئے۔ سرحدیں خاص طور پر زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’جنسی تشدد بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے چیک پوائنٹس اور کراسنگز پر کیا گیا۔‘
حملہ آوروں میں سے کئی وردیوں میں ہوتے ہیں۔ اسی لیے اذیت برداشت کرنے والے شکایت کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ہجرت کرنے والوں کا راستہ اکثر لیبیا سے بنتا ہے اور یہ ملک اس خوفناک استحصال کا گڑھ بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انٹرویو کیے جانے والوں میں سے ایک تہائی کو لیبیا میں زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے ساتھ ظلم کرنے والے کون لوگ تھے۔ لیبیا میں پناہ گزینوں کو گینگ اور جسم فروشوں کے چنگل میں پھنس جانے کا خطرہ ہے۔
ریپ اور جنسی غلامی کے واقعات کی کہانیاں اتنی عام ہیں کہ کچھ خواتین اس طرح کے سفر پر جانے کے لیے مانع حمل کے انجیکشن کے علاوہ بہ وقت ضرورت دوسرے طریقوں کی تیاری کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لیبیا میں 34 ڈیٹینشن سینٹر کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے تین دور دراز کے صحرائی علاقوں میں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر حکومت کے ادارے جو غیرقانونی ہجرت پر قابو پانے کے لیے قائم کیا گیا ہے اس کے تحت چلتے ہیں۔ مگر یونیسیف کا کہنا ہے کہ کئی مسلح گروہ بھی مہاجرین کو غیر سرکاری کیمپوں میں رکھتے ہیں۔
جسٹن فورسائیتھ کا کہنا ہے کہ اُنہیں مختلف ملیشیا کی جانب سے چلائے جانے والے کیمپوں کے بارے میں زیادہ پریشانی ہے۔ انہی کیمپوں میں سب سے زیادہ زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان تک رسائی بھی بہت کم ملتی ہے۔ دو ہزار سولہ میں 180,000 افراد نے لیبیا سے اٹلی تک سفر کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان میں سے تقریباً 26,000 بچے تھے جن میں زیادہ تر تنہا سفر کر رہے تھے۔ اکیلے سفر کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جسٹن فورسائیتھ کا کہنا ہے کے اس مسئلہ کی مختلف وجوحات ہیں۔ ایریٹریا اور شمالی نائیجیریا میں حالات کافی خراب ہیں اس کے علاوہ حال ہی میں گیمبیا بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لیبیا سے یورپ میں جسم فروشی کے لیے عورتوں کو غیر قانونی طور پر بیچا جاتا ہے اور لیبیا اس کا گڑھ بن گیا ہے۔ لیبیا میں سیاسی انتشار کی وجہ سے حالات پر قابو پانا بہت مشکل ہوگیا ہے اور رپورٹ کے مطابق یہ مسئلہ اب ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔