نئی دہلی۔ بابری مسجد انہدام کیس میں اڈوانی ، جوشی سمیت 13 رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ سازش کا کیس چلے گا۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچے کو منہدم کيے جانے کے معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی، مسٹر مرلی منوہر جوشی اور محترمہ اوما بھارتی سمیت 12 رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ چلانے کا آج حکم دیا۔
جسٹس پناكي چندر گھوش اور جسٹس روهگٹن ایف نریمن کی بنچ نے اس معاملے میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی اپیل قبول کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔ بینچ کی جانب سے جسٹس نریمن نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’ہم الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سی بی آئی کی اپیل قبول کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ ہدایات جاری کرتے ہیں‘‘۔ کورٹ نے راجستھان کے گورنر مسٹر کلیان سنگھ کے خلاف فی الحال الزام طے نہ کرنے کا حکم دیا۔
بینچ نے کہا کہ مسٹر سنگھ گورنر کے آئینی عہدے پر فائز ہیں اور جب تک وہ اس عہدے سے ہٹ نہیں جاتے اس وقت تک ان کے خلاف الزامات طے نہیں کئے جائیں گے۔ مسٹر اڈوانی، مسٹر جوشی اور محترمہ بھارتی کے علاوہ جن لیڈروں کے خلاف مقدمے چلائے جائیں گے ان میں بی جے پی ممبر پارلیمنٹ ونے کٹیار، سادھوی رتمبھرا، ستیش پردھان اور سی آر بنسل شامل ہیں۔
اس معاملہ میں لکھنؤ اور رائے بریلی دونوں جگہوں پر مختلف مقدمے چل رہے تھے۔ لکھنؤ میں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف جبکہ رائے بریلی میں مسٹر اڈوانی وغیرہ رہنماؤں کے خلاف مقدمے چل رہے ہیں۔ ان لیڈروں پر اشتعال انگیز تقریر کے ذریعے کارسیوکوں کو بابری مسجد منہدم کرنے کے لئے اکسانے کے الزامات ہیں۔ بنچ نے رائے بریلی میں جاری مقدمے کو چار ہفتوں کے اندر اندر لکھنؤ منتقل کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے کہا کہ سماعت روز انہ چلے گی اور اسے دو سال میں مکمل کرنا ہوگا۔ سی بی آئی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ استغاثہ کا ایک گواہ بیان درج کرنے کے لئے سماعت کے دوران نچلی عدالت میں موجود ہو۔ معاملے میں فیصلہ سنائے جانے تک سماعت کرنے والے ججوں کے تبادلے نہیں کئے جائیں گے۔
عدالت نے کہا کہ اس کے احکامات پر بعینہ عمل کیا جانا چاہئے۔ اس نے واضح کیا کہ اگر کسی پارٹی کو ایسا لگتا ہے کہ عدالت کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے تو اسے عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹانے کی چھوٹ ہوگی۔ گزشتہ چھ اپریل کو بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ نچلی عدالت نے ان لیڈروں کو مجرمانہ سازش کے الزامات سے بری کر دیا تھا، جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے 21 مئی 2010 کو برقرار رکھا تھا۔ اس کے بعد سی بی آئی نے عدالت کی پناہ لی تھی۔