ڈاکٹر۔ سینیگال کی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے فوجی گیمبیا میں داخل ہو گئے ہیں جس کا مقصد حالیہ صدارتی انتخابات کے فاتح آداما بارو کو ملک کے نئے صدر کی حیثیت سے اقتدار کی منتقلی یقینی بنانا ہے۔ اس سے تھوڑی ہی دیر قبل بارو نے سینیگال میں واقع گیمبیا کے سفارت خانے میں عہدۂ صدارت کا حلف اٹھا لیا تھا۔ انھیں بین الاقوامی طور پر گیمبیا کی صدارت کا مسحق سمجھا جا رہا ہے لیکن گیمبیا کے سابق صدر یحییٰ جامع نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ انھیں پارلیمان کی حمایت حاصل ہے۔
مغربی افریقی ملکوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ جامع کو زبردستی معزول کر دیں گے۔ اقوامِ متحدہ بھی بارو کی حمایت کرتی ہے۔ جمعرات کو 15 رکنی سلامتی کونسل نے زور دیا ہے کہ یہ مسئلہ ‘پہلے سیاسی طور پر حل کیا جائے۔’ خبررساں اداروں کے مطابق سینیگالی فوج کے ترجمان کرنل عبدو ایندیائے نے کہا کہ ان کے فوجی دستے جمعرات کی سہ پہر گیمبیا میں داخل ہو گئے۔
اے ایف پی کے مطابق نائجیریا نے اس سے قبل کہا تھا کہ ‘جاسوسی کرنے کے لیے مسلح فضائیہ گیمبیا کی فضاؤں میں ہے۔’ نائجیریا کی فضائیہ کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا: ‘ان کے پاس حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔’ مغربی افریقی فوجی طاقتوں نے واضح کیا ہے کہ وہ گیمبیا میں منتقلیِ اقتدار کے لیے تیار ہیں۔
بارو نے ڈاکار میں واقع گیمبیا کے سفارت خانے میں حلف لیا۔ تقریبِ حلف برداری کے دوران انھوں نے گیمبیا کی فوج کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیرکوں ہیں میں رہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ‘جن فوجیوں کے پاس ہتھیار پائے گئے انھیں باغی تصور کیا جائے گا۔’
سینیگال میں مغربی ملکوں کے سُفرا، مغربی افریقہ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ایلچی اور علاقائی معاشی تنظیم ایوکواس نے تقریب میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ اس دوران سینکڑوں گیمبیائی باشندے عمارت کے باہر موجود تھے۔ اسی دوران گیمبیا کی پارلیمان نے دو تہائی اکثریت سے یحییٰ جامع کی مدتِ صدارت میں تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ان کے پاس اب بھی ملک کا صدر کہلوائے جانے کا قانونی جواز موجود ہے۔
گیمبیا کے وزیرِ اطلاعات سِدی نیے نے جمعرات کو بی بی سی کو بتایا کہ جامع کا اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
مغربی افریقہ کا یہ ننھا سا ملک اپنے دلکش ساحلوں کی وجہ سے یورپی سیاحوں میں خاصا مقبول ہے۔ اسے تین طرف سے سینیگال نے گھیر رکھا ہے۔ بی بی سی کے افریقہ کے لیے سکیورٹی نامہ نگار ٹومی اولاڈیپو کہتے ہیں کہ گیمبیا کی کل فوج صرف ڈھائی ہزار سپاہیوں پر مشتمل ہے اس لیے یہ تصور کرنا محال ہے کہ وہ سینیگال کا مقابلہ کر سکے۔