محصور شہروں کو ہنگامی بنیادوں پر امدادی سامان کی ضرورت ہے
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے روس اور امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں تمام متحارب دھڑوں پر زور دیں کہ وہ امدادی سامان کو حفاظت سے گزرنے دیں۔
جنگ بندی کے 48 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی 40 ہزار لوگوں کے لیے خوراک سے لدی گاڑیاں ترکی کی سرحد پر پھنسی کھڑی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ حلب شہر کے مشرقی حصے جیسے باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں امداد پہنچانا ترجیح ہے، تاہم طرفین کے درمیان اختلاف اور سلامتی کی تشویش کی وجہ سے ہنگامی امداد کی ترسیل تعطل کا شکار ہے۔
٭ہنگامی امداد بدھ سے پہنچنا شروع ہو جائے گی
٭ شام میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع
صدر بشار الاسد کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ امدادی سامان کی ترسیل پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
بان کی مون نے کہا: ’یہ انتہائی ضروری ہے کہ ضروری حفاظتی اقدامات کیے جائیں‘ تاکہ امدادی قافلے سفر کر سکیں۔
جنگ بندی سے قبل شہر کے مختلف علاقوں کو راکٹوں اور مورٹر گولوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے
’میں نے روسی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، اور امریکی حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ شام میں مسلح تنظیمیں مکمل تعاون کریں۔‘
شامی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امدادی سامان کو صرف اس صورت میں حلب پہنچنے کی اجازت دے گی اگر یہ اس کے اور اقوامِ متحدہ کے ذریعے بھیجی جائے۔
اس دوران برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اسے جنگ بندی کے پہلے 48 گھنٹوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اس سے اس روسی دعوے کی تردید ہوتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ حلب کو جانے والی سڑک پر گذشتہ روز دو سرکاری فوجی مارے گئے تھے۔
مشرقی حلب میں ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ گھرے ہوئے ہیں۔ وہاں اقوامِ متحدہ کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں تاہم رہائشیوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اکثریت جنگ بندی میں تعطل سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔
باغی تنظیم فری سیریئن آرمی نے ایک رکن نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’پہلے گلیاں خالی ہوا کرتی تھیں، لیکن اب لوگ آ جا رہے ہیں اور بچے میدانوں میں کھیل رہے ہیں۔ تاہم منفی بات یہ ہے کہ بازار خالی ہیں۔‘
جنگ بندی سے قبل شہر کے مختلف علاقوں کو راکٹوں اور مورٹر گولوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
شہر کے باسیوں کو ہنگامی بنیادوں پر ایندھن، آٹے، گندم، بچوں کے دودھ اور دواؤں کی ضرورت ہے۔
روئٹرز کے مطابق منگل کے روز امدادی سامان سے لدے ٹرکوں کے دو قافلے حلب کے مغرب میں 40 کلومیٹر دور کھڑے ہیں لیکن انھیں آگے جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔
بیروت سے بی بی سی کے نامہ نگار جیمز لانگ مین کہتے ہیں کہ اس تعطل کا ایک سبب یہ ہے کہ اس علاقے میں القاعدہ کے حامی سرگرم ہیں اور حلب کو جانے والی مرکزی شاہراہ محفوظ نہیں ہے۔
تاہم روسی امدادی ٹرک حمص صوبے میں شامی حکومت کے زیرِ قبضہ علاقوں تک پہنچ گئی ہیں۔