فیض آباد؛ ایودھیا کی بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کے سب سے قدیم مدعی ہاشم انصاری کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ اس معاملہ میں مسلم فریق ہاشم انصاری کا بدھ کی صبح ساڑھے 5 بجے انتقال ہو گیا. ہاشم انساری کی عمر قریب 95 سال تھی. وہ کافی وقت سے بیمار تھے. انہیں پیسمیکر بھی لگایا گیا تھا.
ہاشم انصاری کا متنازع مقام کیس کے ہندو فریقین سے اچھا رشتہ بھی تھا. مہنت گیان داس وغیرہ سے بھی وہ گلے ملتے رہتے تھے. ہاشم کا کہنا تھا کہ ایودھیا کے متنازعہ مقام کا مسئلہ مختلف ہے اور اپنے دوستوں سے رشتہ الگ. ہاشم یہ بھی کہتے تھے کہ چاہے سپریم کورٹ کا کچھ بھی فیصلہ آئے، ایودھیا کے ہندو مسلمانوں اور ہندو مذہبی رہنماؤں سے ان کے تعلقات کبھی خراب نہیں ہوں گے. ہاشم اس کیس کے سب سے قدیم فریق تھے اور نچلی عدالت، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک میں ایودھیا کے متنازعہ مقام کے معاملے میں ان کی جانب سے حلف نامے داخل کئے گئے تھے.
ہاشم انصاری کی موت سے ایودھیا کیس کی سپریم کورٹ میں چل رہی سماعت پر اثر پڑ سکتا ہیں رام جنم بھومی بابری مسجد کیس میں جتنی معلومات انصاری کو تھی اتنی شاید ہی کسی پیروکار کو ہوگی. ان کی موت سے اس کیس پر جس نے ملک کی سیاست ہی نہیں سمت بھی بدلی تھی اور بھی تاخیر ہونے کا امکان ہے. ماہرین کی مانیں تو انصاری اگر زندہ رہتے تو اس کیس میں آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی بھی امکان تھا. وہ ہمیشہ سے اس حق تھے اور اس کے لئے انہوں نے ہمیشہ بات چیت کے ذریعے کچھ راستہ کھولنے کی کوشش کی.
ایودھیا کیس کے تنازعہ کے حل کے لئے ہاشم انصاری ہمیشہ ہندو سادھو اور ستوں سے بات چیت کرتے رہتے تھے. آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قانونی مشیر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ انصاری کی موت کے بعد ان کے بیٹے کو مقدمے میں پروكر بنایا جا سکتا ہے. انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انصاری کی موت سے مسلموں کا موقف اس ایودھیا کیس میں کمزور ہوگا۔