اسلام آباد ۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق 4 درخواستیں باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرلی۔ عدالت نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کا دھرنا روکنے کی درخواست قبل از وقت قرار دیکر مسترد کر دی۔ عدالت نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے کمشن قائم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو دینے سے متعلق درخواستیں بھی مسترد کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمشن نہ بنانے پارلیمانی کمیٹی بنانے اور 2 نومبر کو پی ٹی آئی کا دھرنا روکنے کے حوالے سے وطن پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر ظفر اللہ خان اور ایڈووکیٹ طارق اسد کی متفرق درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے خارج کر دیا۔ کیس کی مزید سماعت دہ ہفتوں کے لیئے ملتوی کر دی گئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی سیاسی معاملے میں الجھنا نہیں چاہتی دھرنا روکنے کی یہ درخواستیں قبل از وقت ہیںہم کسی سیاسی محاذ آرائی کاحصہ نہیں بنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پہلے ہی جوڈیشل کمشن بنانے کی حکومتی درخواست واپس کر چکی ہے۔ عدالت اس وقت مداخلت کرے گی جب حکومت کسی معاملے کو حل کرنے میں ناکام ہو جائے اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہو گا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم ودیگر کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے علاوہ پارٹی کے رہنما جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، اسحاق خاکوانی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، میاں اسلم و دیگر عدالت میں موجود تھے جبکہ حکمران پارٹی ن میںسے وفاقی وزرا خواجہ آصف اور سعد رفیق مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز، طارق فضل چودھری اور محمد زبیر بھی عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ کی درخواست قبل ازوقت ہے۔ فاضل وکیل نے کہاکہ عمران خان نے کمشن بنانے کیلئے دھمکیاں دی ہیں جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ ہمیں کوئی دھمکیاںنہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس نے کہ پارلیمانی کمیٹی یا کمشن بنانا حکومت کا کام ہے تاہم عدالت نے جوڈیشل کمشن کے حوالے سے حکومتی خط کا جواب دیتے ہوئے کمیشن بنانے کی درخواست قبول نہیں کی آپ کی درخواست قبل ازوقت ہے اس لئے اس کو خارج کیا جاتا ہے، سماعت کے دوران طارق اسد ایڈووکیٹ نے پیش ہوکر موقف اپنایا تحریک انصاف نے اسلام آباد کوبند کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے پورا شہر پریشان ہے، یہ غیرآئینی بات ہے اس کے ساتھ پانامہ لیکس کابھی معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام بھی عدالت ہی کرے لیکن ہم کسی سیاسی محاذ آرائی میں نہیں پڑیں گے، صرف اس وقت مداخلت کریں گے جب انتظامیہ شہریوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام رہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے ایڈووکیٹ اسد منظور بٹ نے پیش ہوکر بتایا کہ ہماری درخواست میں جو استدعا کی گئی ہے عدالت اس کے مطابق احکامات جاری کرے جس پر عدالت نے ان کی درخواست پر وفاق، وزارت قانون، وزارت خزانہ، کابینہ ڈویژن اور نیب کو نوٹسز جاری کر دیئے۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ نے پیش ہوکر اپنے دلائل میں کہا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ یکم جنوری2016 ء میں سامنے آچکا ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف و دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں، پانامہ کے معاملے پر کئی غیر ملکی شخصیات نے اپنے عہدوں پر استعفے دیئے ہیں، وزیراعظم نے پارلیمنٹ اورقوم سے اپنے خطاب میں کہا تھاکہ وہ اختساب کیلئے تیار ہیں لیکن آج تک اس اعلان پرعمل نہیں ہو سکا۔