کلکتہ:مغربی بنگال کے مرشدآباد ضلع میں میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں آج دوپہر آگ لگنے سے کم سے کم تین افراد کی موت ہوگئی ہے ۔، 50سے زاید زیر علاج بچوں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے ۔اسپتال عملہ بالخصوص کئی نرسوں کی بھی دھواں کی وجہ سے حالت خراب ہوگئی ہے ۔
مغربی بنگال حکومت نے اس حادثہ میں مرنے والے افراد کے اہل خانہ کیلئے دو دو لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے ۔سرکاری طور پر دو افراد کی موت کی تصدیق کی گئی ہے تاہم غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق چار افراد کی موت ہوچکی ہے ۔
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بذات اس پورے معاملے کی نگرانی کررہی ہے ۔محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران کو روانہ کردیا گیا ہے ۔ذرائع کے مطابق 3سے 4نرسوں کی حالت خراب ہوگئی ہے ۔کئی نوزائیدے بچوں کی حالت بھی خراب ہے ۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جانچ کی ہدایت دی ہے ۔اسپتال انتظامیہ ، پولس اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ تینوں سے الگ الگ رپورٹ طلب کی ہے ۔ اس واقعے میں مرنے والوں میں دو نرس بھی ہیں جن کے نام مامون سرکار اور مینوتی سرکار ہے ۔ان دونوں کی دھواں میں دم گھٹنے کی وجہ سے موت ہوئی ہے ۔چندریما بھٹا چاریہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کو روانہ کیا گیا جو اسپتال کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیں گی۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق اسپتال کے تیسری منزل میں میڈیکل اسٹور میں پہلے آگ لگی ، آگ کی خبر ملتے ہی محکمہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچ گئیں تھیں مگر آتشزدگی کی خبر پھیلتے ہی اسپتال میں آہا کار مچ گیا اور جو جس حالت میں وہ بھاگنے کی کوشش کرنے لگا اس کی وجہ سے کئی افراد زخمی بھی ہوگئے ۔موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ اسپتال میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کوئی عملہ موجود نہیں تھا ۔
اس واقعہ نے 10دسمبر 2011میں کلکتہ کے پرائیوٹ نرسنگ ہوم اے ایم آر ای اسپتال میں آتشزدگی کی یاد تازہ کردی جہاں 90 افراد دھواں میں دھم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے ۔
مرشدآباد میڈیکل اینڈ اسپتال میں آتشزدگی نے ثابت کردیا ہے کہ محکمہ صحت نے آمری اسپتال حادثہ سے کوئی سبق نہیں لیا تھا ۔یہی وجہ سے ہے کہ اسپتال میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کوئی عملہ موجود نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ایمرجنی اور کئی دروازے بند تھے جس کی وجہ سے مریضوں کو نکالنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پرا۔