19 ویں صدی میں اس تاریخی مسجد کو سکھ حکمرانوں نے 1819 ء سے 1842 ء تک مسلسل 23 برسوں تک بند رکھا تھا۔ جامع مسجد میں 26 جنوری یوم جمہوریہ کے موقع پر (جو کہ جمعہ کا دن تھا) سخت ترین بندشوں کے ذریعے نماز کی ادائیگی ناممکن بنائی گئی تھی۔
اس کے بعد 2 فروری کو کشمیری مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی طرف سے دی گئی ‘شوپیان چلو’کی کال کو ناکام بنانے کے لئے انتظامیہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی ناممکن بن گئی تھی۔
خیال رہے کہ کشمیری مزاحمتی قیادت کے علاوہ دیگر متعدد علیحدگی پسند راہنماؤں نے محمد افضل گورو کو پھانسی دیے جانے کے پانچ برس مکمل ہونے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 9فروری کو مکمل ہڑتال اور جموں کشمیر کی سبھی مساجد میں محمد افضل گورو اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی باقیات کی واپسی کے لئے آواز بلند کرنے کی غرض سے ایک قرار داد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسی حوالے سے پرامن احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی تھی۔
تاہم کشمیر انتظامیہ نے احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد بھڑک اٹھنے کے خدشے کے پیش نظر نہ صرف سری نگر کے سات پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں جزوی یا کلی طور پر کرفیو جیسی پابندیاں عائد کردیں،