سری نگر:وادی کشمیر کی صورتحال پر کل جماعتی وفد کے دورے کا کوئی مثبت اثر نہیں پڑا جہاں محض 12 گھنٹے کے وقفے میں دو جواں سال نوجوان جاں بحق ہوگئے ۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے سیر ہمدان میں منگل کی صبح ایک 20 سالہ نوجوان نثار احمد ڈار اُس وقت ہلاک ہوگیا جب سیکورٹی فورسز نے احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے چھرے والی بندوق کا مبینہ طور پر بے تحاشہ استعمال کیا۔
چھرے والی بندوق سے جواں سال نثار احمد کی موت مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے بیان کہ ‘کشمیر میں اب چھرے والی بندوق کے متبادل کے طور پرپاوا شیل استعمال کئے جائیں گے ‘ کے محض ایک روز بعد ہوئی۔
نثار احمد کی ہلاکت سے قبل شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کا رہنے والا 17 سالہ جواں سال نوجوان آصف مجید ناگو گزشتہ رات سری نگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال (ایس ایم ایچ ایس) میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ضلع اننت ناگ کے سیر ہمدان نامی گاؤں میں جمعہ کی صبح سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ احتجاجیوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے دوران شب نہ صرف رہائشی مکانوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی بلکہ قریب تین درجن مکینوں کو زدوکوب کیا۔
سیکورٹی فورسز نے احتجاجیوں کو منتشر کرنے کے لئے چھرے والی بندوق اور آنسو گیس کے شیلوں کا شدید استعمال کیا جس کے نتیجے میں قریب 50 افراد زخمی ہوگئے ۔ زخمیوں کو مقامی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں نثار احمد کو مردہ قرار دے دیا گیا۔
سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں جمیلہ نامی ایک خاتون شدید زخمی ہوگئی ہے جسے علاج ومعالجہ کے لئے سری نگر منتقل کیا گیا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق آنسو گیس کا شیل جمیلہ کے سر میں لگا ہے ۔ نثار احمد کی ہلاکت سے قبل شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کا رہنے والا 17 سالہ جواں سال نوجوان آصف مجید ناگو گزشتہ رات سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 17 سالہ آصف مجید ناگو جو 4 ستمبر کو ایپل ٹاون سوپور کے واڈورہ میں احتجاجی مظاہرے کے دوران زخمی ہوگیا تھا، تیس گھنٹوں تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد گزشتہ رات قریب ساڑھے دس بجے دم توڑ گیا۔ آصف مبینہ طور پر سر میں آنسو گیس کا شیل لگنے سے زخمی ہوگیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق آصف کا نماز جنازہ ایس ایم ایچ ایس اسپتال کے احاطے میں بھی ادا کیا گیا، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
قابل ذکر ہے کہ 17 سالہ آصف اُس دن زخمی ہوا تھا جب 20 سیاسی جماعتوں کا 26 رکنی وفد کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے یہاں آیا ہوا تھا۔ اتوار کو وادی کے اطراف واکناف میں ہونے والے پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 300 عام شہری زخمی ہوگئے تھے ۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق آصف کو منگل کی صبح اپنے آبائی گاؤں سونہ ونی لنگیٹ میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد لحد کیا گیا۔
دو تازہ ہلاکتوں کے ساتھ وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد بڑھ کر 75ہوگئی ہے ۔ ہلاک شدگان میں تین خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 13ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ۔ اِن میں سیکورٹی فورس اہلکاروں کی تعداد 4 ہزار ہے ۔سینکڑوں کی تعداد میں شہری آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں اور اِن میں سے اب تک درجنوں نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔
دریں اثنا وادی میں جاری ہڑتال منگل کو 60 ویں روز میں داخل ہوگئی۔ اگرچہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ منگل کو وادی کے کسی بھی حصے میں کرفیو نافذ نہیں ہے ، لیکن گرمائی دارالحکومت سری نگر کے پائین شہر اور سیول لائنز کے کچھ علاقوں کی زمینی صورتحال بالکل مختلف ہے ۔
جہاں پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندی بدستور جاری ہے ، وہیں سیول لائنز میں تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی مختلف سڑکوں بالخصوص امیرا کدل کو خاردار تار سے بدستور سیل رکھا گیا ہے ۔
کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی میں جاری ہڑتال میں 8 ستمبر تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ تاہم کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا کسی بھی ‘آزادی حامی’ جلسے میں شرکت سے روکنے کے لئے انہیں یا تو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے ، یا انہیں پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے ۔
چار رکنی کل جماعتی وفد سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری ، سی پی آئی لیڈر ڈی راجا، جے ڈی یو لیڈر شرد یادیو اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سربراہ اسد الدین اویسی 4 ستمبر کو علیحدگی پسند قیادت سے ملنے کے لئے گئے ہوئے تھے ، تاہم جہاں چشمہ شاہی ہٹ نما جیل میں نظر بند میرواعظ اور ہم ہامہ پولیس میس میں مقید یاسین ملک نے کشمیر پر کوئی بھی بات کرنے سے انکار کیا، وہیں مسٹر گیلانی نے وفد کے اراکین یچوری اور راجا کے لئے اپنی رہائش گاہ کے دروازے بند کردیے ۔
سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ وادی کشمیر کے کسی بھی حصے میں آج کرفیو نافذ نہیں ہے ، تاہم امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں جاری رکھی گئی ہیں۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے سیول لائنز کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ کو تاریخی لال چوک کی طرف جانے والے امیرا کدل برج کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا ہے ۔
تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی دیگر سڑکوں کو بھی بدستور سیل رکھا گیا ہے ۔ تاہم راہگیروں کو پیدل چلنے کی اجازت دی جارہی ہے ۔ اسی طرح جے کے ایل ایف کا گڑھ مانے جانے والے مائسمہ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بڈشاہ چوک، حاجی مسجد، ریڈکراس روڑ اور گاؤ کدل کے مقامات پر بند رکھا گیا ہے ۔
سری نگر کے سیول لائنز بشمول ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، گھنٹہ گھر، ریگل چوک، ریذیڈنسی روڑ، مولانا آزاد روڑ، ککر بازار، مہاراجہ بازار، گونی کھن، بتہ مالو اور اقبال پارک میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز آج 60 ویں روز بھی بند رہے ۔ سری نگر اور وادی کے دیگر اضلاع میں پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت بدستور معطل ہے ، جبکہ سرکاری و نجی دفاتر میں معمول کا کام کاج ٹھپ پڑا ہوا ہے ۔
وادی کے تقریباً تمام تعلیمی ادارے یکم جولائی سے بند ہیں۔ اگرچہ سرکاری ذرائع کے مطابق آج وادی کے کسی بھی علاقہ میں کرفیو نافذ نہیں ہے ، تاہم موصولہ اطلاعات کے مطابق پائین شہر میں تعینات سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس کے اہلکار لوگوں کو آزادانہ نقل وحرک کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ میڈیا اہلکاروں کا ایک گروپ جو سیول لائنز سے پائین شہر جارہا تھا، کو سیکورٹی فورسز نے داوود برج سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔ سیکورٹی فورس اہلکاروں نے میڈیا اہلکاروں کو بتایا ‘ڈاون ٹاون میں کرفیو لگا ہوا ہے ، ہمیں کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہ دینے کے احکامات ملے ہیں’۔ تاہم سینئر پولیس اہلکاروں کی مداخلت کے بعد میڈیا اہلکاروں کو آگے جانے کی اجازت دی گئی۔
پاندن نوہٹہ کے ایک رہائشی محمد اشرف نے بتایا کہ وہ کرفیو کے باعث گذشتہ پانچ روز سے اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں۔ انہوں نے بتایا ‘ہمیں اشیائے ضروریہ خاص طور پر دودھ، روٹی اور سبزیوں کی شدید قلت کا سامنا ہے ‘۔ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کا باب الداخلہ بدستور بند ہے ۔
جامع مسجد کے اردگرد بالخصوص جامع مارکیٹ میں سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات رکھے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں مسجد کے اندر نماز فجر ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کرفیو کے باعث تاریخی جامع مسجد میں 9 جولائی سے نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نالہ مار روڑ کو خانیار کے مقام پر بدستور بند رکھا گیا ہے ۔
تاہم اس پر لوگوں کو پیدل چلنے کی اجازت دی جارہی تھی۔ صفاکدل کے رہائشیوں نے بتایا کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔