تہران۔ ایرانی صدارتی انتخابات میں مختلف امیدوار بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کے ساتھ ان میں سے کچھ روز گار او کچھر عوام کو سرکار کی طرف سے مالی امداد فراہم کرنے کے وعدے کر رہے ہیں۔ ملک کے موجودہ صدر حسن روحانی کے ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حسن روحانی نے 2015 میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا اور یوں مغرب کے ساتھ اس کا ایک طویل عرصے سے چلے آنے والا تنازع طے پا گیا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر امریکہ اور مغرب کی طرف سے عائد کردہ اقتصادی اور دفاعی پابندیاں اٹھا لی گئیں لیکن ایران میں عام آدمی کا کہنا ہے کہ ان کی کوئی اثر عوام کی زندگیوں پر نہیں پڑا ہے۔
جائیداد کی خرید و فروخت کا کام کرنے والے علی سعیدی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برس سے لوگوں کی اکثریت نے جائیداد کی خرید و فروخت سے دور رہے ہیں پہلے اس امید پر کہ جوہری پروگرام پر معاہدے کے بعد جائیداد کی قیمتیں کم ہوں گی اور اب وہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے انتظار میں ہیں۔
علی سعیدی نے مزید کہا کہ بہت سے ان کے جاننے والوں نے جائیداد کی خرید و فروخت کا کام ترک کر دیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے مطابق ایران میں ہاؤسنگ مارکیٹ میں 2017 میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی جب کہ ان کی اقتصادی نمو کی شرح چھ اعشاریہ چھ فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اقتصادی شرح نمو میں اضافے کی وجہ تیل کی فروخت ہے جو پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد بڑی تیزی سے بڑھی ہے۔
تہران کے میئر محمد باقر قالیباف نے دعوی کیا ہے کہ اگر انھیں اقتدار حاصل ہو گیا تو وہ پانچ کروڑ روز گار کے مواقعے پیدا کریں گے۔ ایران نے گزشتہ چار دہائیوں میں ایک سال میں زیادہ سے زیادہ چھ لاکھ نوکریاں پیدا کی ہیں۔
ایران میں اس وقت بے روز گاری کی شرح بارہ اعشاریہ سات فیصد ہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک اعشاریہ سات فیصد زیادہ ہے۔ اس طرح ایسے لوگوں کی جن کے پاس کوئی روز گار نہیں ان کی کل تعداد تینتیس لاکھ بنتی ہے۔ پچیس سے چوبیس سال کے نوجوانوں میں ہر تین میں سے ایک بے روز گار ہے۔ اس عمر کی خواتین میں بے روز گاری تقریباً سو فیصد ہے۔
بے روز گار مرد اور خواتین کو قالیباف دو کروڑ پچاس لاکھ ریال ماہانہ بے روزگاری الاونس دینے کا وعدہ کر رہے ہیں جو کہ اڑتیس سال قبل آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ ہوگا۔ قالیباف کے وعدے کی اصل مالیت دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر بنتی ہے لیکن انھوں نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ آخر اتنا پیسہ وہ لائیں گے کہاں سے اور نہ ہی انھوں نے یہ بتایا کہ وہ روزگار کے مواقع دگنے کیسے کریں گے۔
ابراہیم رئیسی جو ایک اور قدامت پسند امیدوار ہیں انہوں نے کلیباف سے بڑھ چڑھ کر چھ کروڑ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ستاون برس کے مذہبی پیشوا اور سابق سرکاری وکیل جو ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں شیعوں کی ایک زیارت کے منتظم اور اس کے مالی امور چلاتے ہیں انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایران کے تیس فیصد غریب ترین لوگوں کے لیے نقد امداد کی رقم کو تین گناہ کر دیں گے۔
ایرانی عوام ہر ماہ تیل کی قیمتوں کے عوض چار لاکھ پچپن ہزار ریال وصول کرتے ہیں اس رقم کو دو کروڑ چالیس لاکہ لوگوں کے لیے تین گناہ کیے جانے کی صورت میں حکومت کو ہر سال تین اعشاریہ پانچ ارب کو بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔
ریئیسی بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ مالی مدد فراہم کرنے کے لیے وہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔ سویڈن میں مقیم ایک ایران ماہر اقتصادیات احمد علوی کا کہنا ہے کہ ‘ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نیلامی میں بولی لگائی جا رہی ہو۔ معیشت اس طرح سے نہیں چلتی۔’ انھوں نے کہا کہ’ یہ بڑے دلکش دعوی اور وعدے ہیں لیکن یہ سیاسی رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں میں احمدی نژاد کی یاد بالکل تازہ ہیں۔’