اسلام آباد: ایران نے لیاری کے گینگسٹر عزیر جان بلوچ کی ان کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ رابطے کے الزامات کو ‘بدنام کرنے کی مہم’ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اسلام آباد میں قائم ایرانی سفارت خانے سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ‘حالیہ کچھ دنوں میں میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے بنیاد افواہوں کہ کچھ ملزمان کی سرگرمیوں کا ایرانی تنظیم سے تعلق ہے’ کو مسترد کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال عزیر بلوچ سے تفتیش کیلئے سندھ حکومت نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ‘غیر ملکی ایجنٹس (ایرانی انٹیلی جنس افسران) کو فوجی تنصیبات اور اعلیٰ حکام سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کے باعث عزیز بلوچ جاسوسی کی سرگرمیوں میں بھی ملوث پایا گیا ہے جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی خلاف ورزی ہے’۔
عزیر نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ ایرانی انٹیلی جنس کے افسر سے چاہ بہار میں ملا تھا جس نے اس سے پاکستانی فوجی افسران کی معلومات اور کراچی کے سیکیورٹی کے ماحول کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کہا تھا۔ یہ جے آئی ٹی رپورٹ فوج کی جانب سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے عزیز بلوچ کو تحویل میں لیے جانے کے بعد سامنے آئی۔
ایرانی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ ‘ایسے بے بنیاد’ مواد کا مقصد عوامی رائے ایران کے خلاف کرنا ہے، یہ زور دیا جاتا ہے کہ یہ سب ‘دونوں قوموں کے درمیان موجود دوستانہ اور بھائی چارہ کی روح کے خلاف ہے’۔ یاد رہے کہ عزیر بلوچ کا 13 صفات پر مشتمل تحریری اعترافی بیان بدھ کے روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے چیف میجر جنرل آصف غفور کی اس ٹوئٹ کے کچھ گھنٹوں کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں پاک فوج کے ترجمان نے فوج کی جانب سے عزیر بلوچ کو تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا بعد ازاں اس کی تصدیق رینجرز کے سینئر خصوصی پروسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ نے بھی کی۔ یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ سال اپریل میں سندھ کے ہوم ڈپارٹمنٹ کو بھیجی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ میں اس بات پر سختی سے زور دیا گیا تھا کہ عزیر بلوچ کا ٹرائل فوجی عدالت میں کیا جانا چاہیے کیوکہ وہ جاسوسی میں ملوث ہے۔