نیویارک ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے سفری پابندی کے حکمنامے کو اقوام متحدہ نے غیر قانونی قراردیا ہے۔ سات مسلم ملکوں کے شہریوں اور مہاجرین پر صدرامریکہ کے حکم سے سفر امریکہ پر پابندی کے خلاف عالمی نکتہ چینی سے پیدا احتجاجی ماحول میں آج اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی اس پابندی کو بین اقوامی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف احتجاج میں امریکی اتحادی بھی شامل ہیں۔
امریکی شہریوں کے احتجاج کا سلسلہ کئی روز سے چل رہا ہے۔ ڈونا لڈ ٹرمپ کو اپنے فیصلے کے خلاف امریکا کے سرکاری ملازمین کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑچکا ہے۔ چند روز قبل ہی مرکزی حکومت کی قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی یئیٹس کو ٹرمپ کے متنازع ایگزیکٹیو آرڈر کی مخالفت پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، سیلی یئیٹس نے محکمہ انصاف کے اٹارنی جنرل کو ٹرمپ کے متنازع امیگریشن احکامات پر عمل کرنے اور ان کی حمایت سے روکا تھا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق اقوام متحدہ کے جاری کردہ بیان میں ماہرین کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ خانہ جنگی سے جان بچا کر آنے والے لوگوں کو ان کی نسل، قومیت اور مذہب میں امتیاز نہ برتتے ہوئے تحفظ فراہم کریں جبکہ امریکا کو پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے اور ان کے زبردستی انخلاء سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق یہ احکام واضح طور پر امتیازی ہیں جبکہ یہ رسوائی کا سبب بھی بنیں گے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرزید رعد الحسین کا 31 جنوری کو کہنا تھا کہ لوگوں کے ساتھ ان کی قومیت پر امتیازی سلوک کرنا غیرقانونی ہے۔
ترک انتظامیہ بھی نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے مہاجرین پر لگائی جانے والی سفری پابندیوں کو ‘جارحانہ’ قرار دے چکی ہے۔ ترکی کے نائب وزیراعظم نعمان قرطلمس نے ٹرمپ کو اسلامو فوبیا سے متاثر اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کا مشورہ دیا تھا کیونکہ ان کے مطابق اس فیصلے کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے۔