روس نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے شام میں فاسفورس بموں سے حملے کئے ہیں ۔ روسی فوج کے مطابق امريکا کے دو ايف پندرہ لڑاکا طياروں نے صوبہ دير الزور ميں ہفتہ آٹھ ستمبر کے روز فاسفورس بم گرائے۔ اطلاعات ہيں کہ ان مبينہ حملوں ميں ہاجين نامی ايک گائوں کو نشانہ بنايا گيا جو وہاں داعش کا آخری مضبوط گڑھ ہے۔
فاسفورس بموں کے مبينہ استعمال سے وہاں آگ لگنے کی اطلاعات تو موصول ہوئی ہيں تاہم فی الحال زخمی يا ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعين نہيں ہو سکا۔امريکی محکمہ دفاع پينٹاگون کے ايک ترجمان نے اپنی افواج کی جانب شام ميں فاسفورس بموں کے استعمال کے روسی الزامات کو مسترد کر ديا ہے۔ کمانڈر شان روبرٹسن کے بقول، فی الحال ان کے پاس ايسی کوئی اطلاع نہيں کہ امريکی افواج نے ايسے بم استعمال کيے ہوں۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ خطے ميں تعینات فوجی يونٹس کے پاس فاسفورس بم ہیں ہی نہیں۔دوسری جانب شامی صوبہ ادلب میں ملکی فوج کی بمباری کے سبب 30 ہزار سے زائد شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے حکام نے خبر رساں ادارےروئٹرز کو آج پیر کے روز بتائی۔
ادھر جرمن وزیر دفاع ارزولا فان ڈیئر لائن کا کہنا ہے کہ وہ شام میں جرمن دستوں کی ممکنہ عسکری کارروائی کا جائزہ لے رہےہیں۔ بلڈ اخبار کے مطابق شامی صدر بشارالاسد نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف اگر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو جرمنی امریکا، برطانیہ اور فرانس کا ساتھ دیتے ہوئے شام میں حملے کر سکتا ہے۔ یہ تینوں ممالک اپریل میں شام میں ایک مبینہ کیمیائی حملے کے بعد اسد حکومت کے خلاف کارروائی کر چکے ہیں۔ يہ امر اہم ہے کہ انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظیمیں يہ کہتی آئی ہیں کہ شام کے مسلح تنازعے ميں داعش کے خلاف امریکاکی قيادت ميں قائم عسکری اتحاد کی جانب سے فاسفورس بم استعمال کيے جاتے رہے ہيں۔
فاسفورس بم گہرا سفيد دھواں پيدا کر ديتے ہيں، جس سے ہر چيز آگ پکڑ ليتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظيميں ايسے بموں کے شہری علاقوں ميں استعمال کو تنقيد کا نشانہ بناتی ہيں کيونکہ اس سے عام شہريوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ روس کے امريکا کے مابين ان دنوں کشيدگی دوبارہ بڑھ گئی ہے۔ امريکا ادلب پر چڑھائی کے دوران کيميائی ہتھياروں کے ممکنہ استعمال پر شام کو دھمکياں ديتا رہا ہے جبکہ روس باغيوں کی آخری پناہ گاہوں کے خاتمے کے ليے دمشق حکومت کے ساتھ ہے۔ ايران، روس اور ترکی کے صدور کی ايک حاليہ سمٹ جنگ بندی کی کسی ڈيل کو حتمی شکل دينے ميں ناکام رہی، جس کے بعد روس نے ادلب ميں اتوار کے روز بھاری بمباری کی۔