واشنگٹن۔ ننگرہار میں امریکہ نے داعش کے ٹھکانوں پر 9800 کلو وزنی بم کا استعمال کیا۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے افغانستان میں اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے ٹھکانے پر 9800 کلوگرام وزنی بم گرایا ہے۔ امریکی فوج کے مطابق یہ بم صوبہ ننگرہار میں واقع دولت اسلامیہ کا سرنگوں پر مبنی کمپلکس پر گرایا گیا۔ 9800 کلوگرام وزنی بم جی بی یو 43/بی سب سے بڑا بم ہے جو امریکہ نے کسی بھی تصادم میں استعمال کیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یہ بم امریکی جہاز سے گرایا گیا۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ بم ننگرہار کے علاقے اچین میں جمعرات کی شام کو گرایا گیا۔ یہ بم پہلی بار 2003 میں ٹیسٹ کیا گیا لیکن کسی جنگ یا تصادم میں اس سے قبل استعمال نہیں کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان شون سپائسر نے کہا ‘ہم نے داغش کی سرنگوں اور غاروں کے نظام کو ٹارگٹ کیا جن کے ذریعے جنگجو آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے تھے۔ اور انہیں سرنگوں کے باعث وہ آسانی سے امریکی مشیروں اور افغان فورسز کو نشانہ بنا سکتے تھے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کی پوری کوشش کی کہ شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔
بی بی سی کے نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں یہ بم گرایا گیا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اور بہت کم آبادی ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بم کی آواز اتنی بلند تھی کہ اس کو دو اضلاع دور بھی سنا گیا۔ اگرچہ امریکہ نے اب تک اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن مقامی حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حملے میں کئی شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ نے یہ کارروائی ایسے وقت کی ہے جب گذشتہ ہفتے ہی ننگرہار میں دولت اسلامیہ کے ساتھ جھڑپ میں امریکی سپیشل فورسز کا فوجی ہلاک ہوا تھا۔
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نكلسن نے کہا ’جہادیوں کے دھڑوں کی شکست میں اضافہ ہوا جس کے بعد وہ آئی ای ڈی، بنکروں اور سرنگوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان رکاوٹوں کو کم کرنے اور ہماری حملوں کی رفتار برقرار رکھنے کے لیے یہ صحیح ہتھیار تھا۔‘ یہ خبر پینٹاگون کے شام میں ایک فضائی حملے میں غلطی سے 18 باغیوں کی ہلاکت کے اعتراف کے چند گھنٹے بعد آئی ہے۔
پینٹاگون نے کہا کہ ان کی ایک حلیف فوج نے غلطی سے اس مقصد کو آئی ایس کے ٹھکانے سمجھ لیا۔ مگر 11 اپریل کو جو حملہ ہوا اس میں مارے گئے باغی شامی ڈیموکریٹک فورس کے باغی تھے جن کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔
افغانستان میں دولتِ اسلامیہ نے جنوری 2015 میں اپنی شاخ قائم کی تھی۔ یہ پہلی بار تھا جب دولتِ اسلامیہ عرب سے باہر نکل کر سرکاری طور پر دنیا میں پھیل رہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی تعداد 1000 سے 5000 تک ہو سکتی ہے۔