سری نگر: وادی کشمیر کے مختلف علاقوں بشمول دارالحکومت سری نگر میں منگل کو بھی سخت ترین کرفیو نافذ رہا۔
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں ہونے والی تازہ شہری ہلاکتوں کے بعد سری نگر میں احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر تمام سڑکوں کو خار دار تار سے سیل کردیا گیا ہے ۔
دریں اثنا 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے باعث وادی میں آج مسلسل 39 ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پورے ضلع سری نگر میں کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے ۔ سخت ترین کرفیو کے نفاذ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام کرفیو پاسز کو منسوخ کردیا گیا ہے اور یہاں تک میڈیا اہلکاروں اور ڈاکٹروں کو بھی شہر کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بدستور بند رکھا گیا ہے ۔
بڈشاہ برج، امیرا کدل، ایکسچینج روڑ، بر برشاہ، ایم اے روڑاور سمندر باغ کے ذریعے وادی کے مختلف علاقوں کو تاریخی لال چوک سے جوڑنے والی تمام سڑکوں کو سیل کر رکھا گیا ہے ۔
مقامی اور قومی اداروں کے لئے کام کرنے والے میڈیا اہلکاروں بشمول فوٹو جرنلسٹوں اور نامہ نگاروں نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز انہیں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے روک رہے ہیں۔ ایک پولیس افسر نے بتایا ‘ہمیں اپنے اعلیٰ افسران سے ہدایت ملی ہے کہ کس بھی فرد کو لال چوک کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جائے ‘۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں بھی کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے جبکہ وادی کے دیگر علاقوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کر رکھی گئی ہے ۔ سری نگر کے شہرخاص، ڈاون ٹاون اور بتہ مالو اور جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں کرفیو کا نفاذ گذشتہ 39 دنوں سے بدستور جاری ہے ۔
کرفیو زدہ علاقوں میں پابندیوں کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت تعینات رکھی گئی ہے ۔ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں پیر اور منگل کی درمیان رات کے دوران احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں ہوئیں جس دوران سیکورٹی فورسز نے متعدد مقامات خاص طور پر بتہ مالو میں احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی میں جاری ہڑتال میں 18 اگست تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا احتجاجی مارچ کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو یا تو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے ، یا پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے ۔
وادی کے اطراف واکناف میں دکانیں اور تجارتی مراکز گذشتہ 39دنوں سے مسلسل بند ہیں جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی بھی معطل ہے ۔
وادی کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جہاں گذشتہ ماہ کی یکم تاریخ سے بدستور بند پڑے ہیں، وہیں سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج 9 جولائی سے بدستور ٹھپ پڑا ہے ۔