اسلام آباد ۔ پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائی میں 50 افغان فوجی ہلاک ہو گئے ۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن کے سرحدی علاقے میں افغان فورسز کے بلااشتعال حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان نئی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور صوبہ بلوچستان میں فر نٹئیر کور ( ایف سی ) کے انسپکٹر جنرل ،میجر جنرل ندیم انجم پاکستانی فورسز کی جوابی فائرنگ سے افغان سکیورٹی فورسز کے پچاس اہلکاروں کی ہلاکت کم سے کم ایک سو کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔
پاکستانی فورسز نے چمن کے سرحدی علاقے میں افغان فورسز کی دو روز قبل بلا اشتعال فائرنگ کے بعد یہ جوابی کارروائی کی ہے۔تاہم میجر جنرل ندیم تاج نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم ان پر خوش نہیں ہے کیونکہ وہ بھی ہمارے مسلم بھائی ہیں‘‘۔
ایف سی کے آئی جی نے ضلع چمن کے سرحدی دیہات پر افغان فورسز کے حالیہ حملے کے بارے میں اتوار کے روز صحافیوں کو بریفنگ دی ہے۔افغانستان کی سرحدی سکیورٹی فورسز نے مردم شماری کی ایک ٹیم کے ساتھ سکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر فائرنگ کردی تھی جس سے بارہ افراد ہمارے گئے تھے اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
اس حملے کے بعد تین سرحدی دیہات کیلی لقمان ، کیلی جہانگیر اور بادشاہ اڈا کہول کے مکین اپنے گھربار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی جانب منتقل ہوگئے ہیں جبکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔پاکستان نے اس حملے کے بعد چمن سرحد بند کردی ہے۔
میجر جنرل ندیم انجم نے بتایا ہے کہ پاکستان کے سرحدی محافظوں کی سرحد پار حملے کے جواب میں کارروائی کے نتیجے میں افغانستان کی چار یا پانچ چیک پوسٹیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔افغانستان نے 5 مئی کو جنگ بندی کی اپیل کی تھی اور پاکستان نے اس کو قبول کر لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان فورسز نے عام شہریوں کو حملے میں نشانہ بنایا تھا حالانکہ انھیں سرحدی علاقے میں جاری مردم شماری کے عمل کے بارے میں پیشگی آگاہ کردیا گیا تھا۔
قبل ازیں پاکستان آرمی کی جنوبی کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے چمن کے سرحدی دیہات پر سرحد پار سے حملے کو شرمناک قرار دیا ہے۔انھوں نے چمن کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو اس طرح کے حملوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور افغان حکومت کو اس طرح کی کارروائیوں پر شرم آنی چاہیے۔