کراچی۔ پاکستان میں وکلا تنظیموں میں وزیر اعظم کے استعفے کے معاملے پر اختلاف۔ پاکستان میں وکلا کی نمائندہ تنظیمیں پاناما لیکس پر عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے معاملے پر اختلافات کا شکار ہوگئی ہیں۔ وکلا تنظیموں کے عہدیدار وزیر اعظم کے استعفے کی حمایت اور مخالفت میں دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسلام آباد میں ہونے والے وکلا کنونشن کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس کے تحت وزیر اعظم نواز شریف سے اِس وقت استعفیٰ طلب کرنے کو قبل از وقت قرار دیا۔
جمعہ کو پاکستان بار کونسل نے اسلام آباد میں وکلا تنظیموں کا کنونشن کرایا جس میں اکثریتی رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنا اور تحریک چلانے قبل از وقت ہے اور اس سے جمہوری نظام کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ سنیچر کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وکلا کنونشن کے فیصلے کو رد کر دیا اور اعلان کیا کہ ہائی کورٹ بار وزیراعظم کے استعفے کے مطالبہ پر قائم ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملک کی پہلی وکلا تنظیم ہے جس نے پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگا تھا اور اس مقصد کے لیے تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کی حمایت کر دی اور سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری آفتاب باجوہ ہائی کورٹ بار کے عہدیداروں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں شامل ہوئے۔
صدر لاہور ہائی کورٹ بار چودھری ذوالفقار علی نے الزام لگایا کہ بعض وکلا نے حکومت سے مراعات لے کر وزیر اعظم کے استعفے سے یوٹرن لیا ہے۔ چودھری ذوالفقار علی کے بقول حکومتی ہتھکنڈے اور بریف کیس ان کا راستہ نہیں روک سکتے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے سیکریٹری عامر سعید کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں حکومتی گماشتے تھے اور وکلا کی کوششوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔
نائب صدر ہائی کورٹ بار راشد لودھی نے اعلان کیا کہ وکلا کنونشن 20 مئی کو ہوگا اور خبر دار کیا کہ اگر کسی نے ہائی کورٹ بار کے کنونشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں موجود سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری آفتاب باجوہ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کو وکلا کنونشن بلانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آفتاب باجوہ نے ہائی کورٹ بار کی حمایت کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ وکلا کنونشن میں پاکستان بار کونسل کے ارکان بھی شامل نہیں تھے۔