نئی دہلی : سپریم کورٹ نے مسلم فرقے میں طلاق ثلاثہ کی روایت کے آئینی جواز کے سلسلے میں مرکزی حکومت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کو آج نوٹس جاری کرکے اس معاملے میں اپنا موقف پیش کرنے کو کہا ہے۔ طلاق ثلاثہ اور مسلم پرسنل لا کے مسئلے پر ملک میں جاری بحث کے درمیان آج ایک اور درخواست آج عدالت میں داخل کی گئی۔
عشرت جہاں نامی ایک خاتون نے یہ درخواست داخل کرکے کہا ہے کہ اس کے شوہر نے سال 2015 میں دوبئی سے فون کے ذریعے انہیں طلاق دیدیا۔ چیف جسٹس ٹی۔ ایس ۔ ٹھاکر کی سربراہی والی سہ رکنی ڈویژن بنچ نے مرکزی حکومت اور اے آئی ایم پی ایل بی کو نوٹس جاری کرکے اس سلسلے میں پہلے سے عدالت میں زیر التوا درخواستوں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔
درخواست دہندہ نے کہا ہے کہ اس کے شوہر نے دوبئی سے ہی فون کے ذریعے اسے طلاق دیدی اور اس کے چاروں بچوں کو اس سے جبراً چھین لیا۔ اس کے بعد اس کے شوہر نے دوسری شادی بھی کرلی۔ فی الحال وہ اپنی سسرال میں ہی مقیم ہے ، جہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ درخواست میں اس کے بچوں کو واپس دلانے اور اسے تحفظ فراہم کرانے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عشرت نے اپنی درخواست میں عدالت سے مسلم پرسنل لا ریپبلکشن ایکٹ 1937 کی دفعہ دو کو غیرقانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ درخواست دہندہ نے عدالت سے جہیز واپس دلانے کی اپیل کی ہے۔ ڈویژن بنچ نے کہا کہ بچوں کو واپس دلانے کے معاملے میں راحت کے لئے درخواست دہندہ کو الگ سے درخواست داخل کرنی چاہیے۔
نینی تال کی سائرہ بانو، جے پور کی آفرین، نور جہاں نیاز اور فرح فیض نامی مسلم خواتین کی درخواستیں عدالت میں سماعت کے لئے زیر التوا ہیں، جس پر پہلے ہی مسلم پرسنل لا کو نوٹس جاری کیا جاچکا ہے۔ بورڈ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں عدالت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ عدالت نے مرکز سے بھی جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔
دراصل جسٹس انل آر۔ دوے اور جسٹس آدرش کمار گوئل پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایک دیگر معاملے میں دیئے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ جیسے معاملے ہیں جن سے خواتین کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے ، اس لئے چیف جسٹس اس معاملے کو مفاد عامہ کی درخواست میں تبدیل کرکے اور ایک اسپیشل بنچ بناکر اس معاملے کا حل نکالنا چاہیے۔ اس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی والی ہی سہ رکنی ایک بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔